منقبت
در وفا پر کھڑا ہوں دل میں بسائے مولا رضا کی خوشبو
ہوں منتظر جسم و جاں پہ برسے سخائے مولا رضا کی خوشبو
یہ آرزو ہے کہ معجزہ یہ دکھائے مولا رضا کی خوشبو
نصیب چشمِ شعور ہو نقشِ پائے مولا رضا کی خوشبو
منقبت
در وفا پر کھڑا ہوں دل میں بسائے مولا رضا کی خوشبو
ہوں منتظر جسم و جاں پہ برسے سخائے مولا رضا کی خوشبو
یہ آرزو ہے کہ معجزہ یہ دکھائے مولا رضا کی خوشبو
نصیب چشمِ شعور ہو نقشِ پائے مولا رضا کی خوشبو
منقبت
اوہام سے حیات کا دامن چھڑا کے دیکھ
الزام عشق شہ کا ذرا تو اٹھا کے دیکھ
تجھ پر کھلے گا عشق کے معنی ہیں کربلا
پردے ہوائے نفس کے اک دن ہٹا کے دیکھ
۱۰۹۔ منقبت
نام فردوس پہ کندہ ہے ابوطالب کا
بزمِ لاہوت میں چرچا ہے ابو طالب کا
تم سمجھتے ہو بھتیجا ہے ابو طالب
یہ محمد تو عقیدہ ہے ابو طالب کا
منقبت
عدوئے آل سے بڑھ کر کوئی ابتر نہیں ملتا
ہے قرآں حفظ لیکن معنئِ کوثر نہیں ملتا
محبت آلِ احمد کی اگر واجب نہیں واعظ
فقط پڑھ لینے سے کلمہ سکوں کیوں کر نہیں ملتا
منقبت
گذرے پت جھڑ کے زمانے آ گیا سرور کا پھول
قدسیوں کے ہیں ترانے آگیا سرور کا پھول
وجد میں آئی صبا ڈھلنے لگے نغمے نئے
دل لگا خود گنگنانے آ گیا سرور کا پھول
نعت
اسی کو زیبا ہے یہ دعوئے ولائے رسول
جو ہو بلال کی صورت سے آشنائے رسول
علی سا بھائی ہو جس کا بتول سی دختر
نہیں ہے کون و مکاں میں کوئی سوائے رسول
منقبت
لکھ رہا ہوں میں جو ثنائے بتول
مجھ کو غلام اپنا بنائے بتول
بن گیا ہوں میں جو گدائے بتول
ہے یہ بہت خاص عطائے بتول
۔منقبت
جمالِ روئے تاباں کی زیارت کی تمنا ہے
قدم بوسئِ تصویرِ نبوت کی تمنا ہے
نظر کے سامنے درکار ہے قبلہ مودت کا
نمازِ عشق کے سجدوں کو رفعت کی تمنا ہے
منقبتی غزل
زمانہ چھوڑ کے اب دل فگار آیا ہے
ترے حضور یہ سجدہ گذار آیا ہے
وصال کی جو تمنا تھی اس تمنا پر
شبِ فراق کی منزل گذار آیا ہے
سلام
دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی
پیاسوں کی کہانی پر خوں ناب قضا روئی
اٹھارویں منت بھی بڑھنے نہیں پائی تھی
اکبر کی جوانی پر خوں ناب قضا روئی
منقبت
ننگِ انسانیت کو ردا مل گئی
چاک داماں کو زرّیں قبا مل گئی
پھر سے آئیں وفا کا مرتب ہوا
عشق کے آئینوں کو جلا مل گئی
۔منقبت
آپ سے ہے آشکارا یا امامِ عسکری
عشقِ ربانی کا دھارا یا امامِ عسکری
لفظ بے شک ہیں جدا گانہ جدا معنی نہیں
چرخِ حکمت کا ستارہ یا امامِ عسکری
منقبت
اگر آل محمد سے محبت ہو نہیں سکتی
تو پھر فکر و عمل کی بھی طہارت ہو نہیں سکتی
جبیں سجدے کرے لاکھوں کسی کے آستانے پر
نہ جھک پائے اگر دل تو عقیدت ہو نہیں سکتی
منقبت
التجاء آپ سے میری ہے بس اتنی اے بی بی
دیجئے رنج و مصائب سے خلاصی بی بی
بہرِ شبیر ہر اک طوقِ گلو گیر ہٹے
نفس کی قید سے مل جائے رہائی بی بی
منقبت
ہے چوکھٹ سے رواں دریائے عرفانِ خدا بی بی
مثالِ مرقدِ زہرا ہے مرقد آپ کا بی بی
سخاوت کا جہاں بھر میں ہے جاری سلسلہ بی بی
کرم سے آپ کے ہیں فیض یاب ارض و سما بی بی
- منقبت
نکہت ہے جذبِ عشق کی قرطاس کی مہک
پیدا ہے لفظ لفظ سے احساس کی مہک
بحرِ ثنا میں رستہ بنانے لگا قلم
فکر و شعور پا گئے الیاس کی مہک
- منقبت
اصیل اصلِ انما ضمیر کربلا حسین
جلیلِ سرِّ ہل اتیٰ عبیر کربلا حسین
دلیلِ رمز لا الہ، صفیر کربلا حسین
غسیل نورِ کبریا، منیر کربلا حسین
سلام
اس طرح کب باغ کوئی بھی لٹا ہائے حسین
جس طرح تیرے چمن کے پھول کملائے حسین
زینب و سجاد کا گریہ تھما کب عمر بھر
خشک چشمِ غم سے آنسو خوں کے برسائے حسین
منقبت
وائے حسرت کہ نہیں ذوقِ عقیدت کامل
ورنہ وہ آج بھی ہیں لطف و کرم پر مائل
ہر نَفَسْ الجھا ہوا نَفْسْ کے جنجال میں ہے
حد مگر یہ ہے نظر آتا نہیں کوئی خجل
منقبت
نہالِ دل نے مہکائے بجائے خود ثناء کے پھول
مئے الفت نے رنگیں کر دئیے عشق و ولا کے پھول
فلک نازاں زمیں ساداں فضائیں گل فشاں ہیں آج
مہکتے ہیں چمن میں صنعتِ رب علا کے پھول
کوفہ میں شور کیسا یہ پروردگار ہے
اٹھا خدا کے گھر سے غموں کا غبار ہے
غم کی فضا زمانے پہ کیسی سوار ہے
ہے خوں چکاں شفق تو زمیں سوگوار ہے
دوڑو نمازیوں کہ ہوئے قتل مرتضیٰ
۔منقبت
ایسا کچھ سلسلہ بھی ہوجائے
بے نواء لب کشا بھی ہو جائے
سہل یہ راستہ بھی ہو جائے
گر دعا مدعا بھی ہوجائے
شعر وہ ہے جہاں خیال کے ساتھ
شامل ان کی رضا بھی ہو جائے
منقبت
جو بھی کرے گا دل سے اطاعت حسین کی
اس کو نصیب ہوگی زیارت حسین کی
وہ بڑھ کے کاٹ دی گی ہر اک شیطنت کا ہاتھ
جس قوم پر بھی ہو گی نظارت حسین کی
ہے دوست یار شیخ و امیہ کی آل کا
جو معتقد نہیں ہے علی کے کمال کا
مدحِ علی نہ لکھے تو جائے گا بھاڑ میں
شاعر جنوب کا ہو کہ شاعر شمال کا
کچھ ہم پہ نہیں موقوف ثنا ہر ذرہ ہے گویا مدحت میں
خوشبوئے ولائے آلِ نبی شامل ہے گلوں کی نکہت میں
پرکیف فضائے دہر ہوئی ہے وجد میں کوثر جنت میں
جوبن پہ ہے فطرت کی دلہن خلقت ہے ڈوبی رحمت میں
منقبت
پا گئی ذائقہِ حق جو زباں مشہد میں
فکر بالیدہ ہوئی حرف جواں مشہد میں
ہستئِ کفر ہوئی ایسے دھواں مشہد میں
عقل حیراں ہے جنوں رقص کناں مشہد میں
نعت
ہر خوشی آپ کے خیال سے ہے
منفعل کب یہ ماہ و سال سے ہے
اعتبارِ جہانِ رنگ و بو
مرتبط شاہِ خوش خصال سے ہے
منقبت
جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے
انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا ہے
کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں
ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے
اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے
کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے
منقبت
ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا
تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا
انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال
قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا
منقبت
خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا
ہوا حرم کو رواں مے گسار حیدر کا
خزاں کو راہی ملکِ عدم بنانے کو
سنارہی ہے قصیدہ بہار حیدر کا
نوحہ
بہارِ باغِ رسول مقتل میں شاہِ دیں یوں لٹا رہے ہیں
حسین دل کے لہو سے اپنے زمینِ مقتل سجا رہے ہیں
گری ہیں غش کھا کے در پہ زینب اٹھے ہیں سجاد غش سے یکدم
صدائے ہل من کو سن کے اصغر زمیں پہ خود کو گرا رہے ہیں
نوحہ
چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے
اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے
لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر
نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے
یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے
تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے
ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت
نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے
ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا
کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے
سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر
دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے
خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے
مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا
فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے
لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب
ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے
۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ
نوحہ
جاگو عباس میرے یارِ وفا دار اٹھو
مجھ کو تنہا نہ کرو میرے علمدار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کے مینار اٹھو
میرے عباس اے دلدار اے کرار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کےمینار اٹھو
تیرے آنے کی لگائے ہوئے امید و آس
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
رقم جو زیست کے صفحہ پہ نام حیدر ہے
تو خلد بھی ہے مری میرا حوضِ کوثر ہے
جو خود میں ڈوبنے والوں کو بخشتا ہے حیات
ولائے حیدرِ کرار وہ سمندر ہے
تقاضہ ہوگیا پورا بصارت کا بصیرت سے
نبوت ہوگئی سرشار دیدارِ امامت سے
اتارا مہبطِ عصمت پہ رب نے سورہِ کوثر
بھری آغوشِ زہرا رب نے قرآں کی عبارت سے
کر نہ پائے سورما جو خنجر و شمشیر سے
کام ابن مرتضیٰ نے وہ لیا تحریر سے
برّشِ شمشیر نے قرطاس سے کھائی شکست
تاج ششدر رہ گیا یوں کِلک کے شہتیر سے
نگاہ و دل کی سازش ہے خدا کی مہربانی ہے
سرِ قرطاس خونِ دل کی یہ شعلہ بیانی ہے
وہ جس کے کِلک سے شمشیرِ برّاں پانی پانی ہے
دیارِ تیغ سب اس کے قلم کی راج دھانی ہے
رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر
رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر
شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر
مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر
نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے
مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے
میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر
کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے
حصارِ نور ہے امن و اماں کا سایہ ہے
حسن کا نام ہے اسلام جس سے زندہ ہے
نماز عشق کے سجدوں میں دل ہوا مشغول
نگہ کے سامنے اس وقت میری کعبہ ہے
درشہوار حسین
صف با صف آج کھڑے ہیں سبھی حبدارِ حسین
بہرِ تقدیم چلے آئے ہیں انصارِ حسین
فرشِ خاکی سے سوئے عرش چلا اوڑھے کفن
لی گئی سوئے خدا خواہشِ دیدارِ حسین
گیا حیات کو اس طرح سرخرو کرکے
تحریر : صائب جعفری
۱۱ فروری ۲۰۱۴
زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے
سید رضا ہاشمی کی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ
مترجم صائب جعفری
اپریل ۲۰۱۹
بنام خدائے رحمان و رحیم
#عرفان، ایک شادی شدہ مرد ہے جو اچانک ایک معشقہ میں گرفتار ہوجاتا ہے، اس کو ہدف کے حصول میں بہت سےواقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔
فلسفہ نزول بلاء
) بالخصوص ابتلائے صالحین
تحقیق: صائب جعفری
امتحانات الہی اور نزول بلا ایک مہم مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہر دور میں ہے ۔بالخصوص وہ امتحانات جو خدا وند کریم نے اپنے اولیاء سے لئے ان کا سبب اور فلسفہ کیا ہے؟ خدا عالم کل ہونے کے باوجود آخر کیوں امتحان لیتا ہے ؟اور ان امتحانات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟۔اس تحقیق میں امتحان اور نزول بلا کے عالم مادہ کا خاصہ ہونے کے عنوان سے زیادہ بحث نہیں کی گئی کیوں کہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر دقیق تحقیق کی ضرورت ہے اس تحقیقی میں حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ عوام الناس میں امتحان و بلا سے متعلق رائج سوالات کا جواب مقالہ کی حدود اور وسعت کو مد نظر رکھ کر دیا جائے اور اپنے بیان پر آیت اور روایت کے ذریعے ثبوت فراہم کیا جائے اور اس بات کو واضح کیا جائے کہ اولیائے الہی کا امتحان گناہگار بندوں کے امتحان سے علیحدہ ہوتا ہے ہر چند ان کے مراتب خدا کی جانب سے ان کو اول عنایت ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسوٹی پر کسا جاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا نے جو فیصلہ اپنے علم کے مطابق کیا تھا وہ درست تھا اور اولیاء انہی مراتب کے حقدار تھے
عالم کون کی تعلیل علی جانتے ہیں
لوحِ محفوظ کی تحلیل علی جانتے ہیں
نور بر دوش ہے کعبہ کی زمیں ، تو قدسی
آپ کے نور کی تجلیل علی جانتے ہیں
اس لئے گود میں احمد کی سنایا قرآں
قبلِ تنزیل بھی تاویل علی جانتے ہیں
یاعلی جب کہا، کہا نہ ہوا
آج تک ایسا سانحہ نہ ہوا
کھکھلاتی جدارِ کعبہ پھر
ایسا مولود دوسرا نہ ہوا
انعکاسِ صفاتِ رب کے لئے
ان سا کوئی بھی آئینہ نہ ہوا