کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۹ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «salam saieb» ثبت شده است

*ما رأیت الا جمیلا*


جمال حق کی نشاں دہی ما رأیت الا جمیلا
ہے کربلا کا نچوڑ بھی ما رأیت الا جمیلا

یہ راہ حق ہے جزع فزع سے بچا کے ایماں محبوں
مثال زینب کہو سبھی ما رأیت الا جمیلا

حسین کی لاش پر جو پہنچی وہ درد و غم کی ستائی
تو گر کے لاشے پہ کہہ اٹھی ما رأیت الا جمیلا

وہ کربلا خاک و خوں کا دریا جہاں قضا چار سو تھی
وہیں عبارت یہ تھی لکھی ما رأیت الا جمیلا

عطش کی شدت سے قصر باطل تو ڈہ چکا تھا کبھی کا 
سوال بیعت کی موت تھی ما رأیت الا جمیلا

بچا کے لائی جو بعد قتل حسین عابد کو زینب
پکارے ہوں گے یہی نبی ما رأیت الا جمیلا

وہ جلتے خیموں کے درمیاں بھی نماز شب پڑھ رہی ہے
اور اس کی چادر ہے چاندنی ما رأیت الا جمیلا

جمی تھی عرصے سے روئے اسلام پر بنام خلافت
وہ گرد زینب نے صاف کی ما رأیت الا جمیلا

علی کی بیٹی علی کے لہجے میں لب کشا جب ہوئی تو
محل میں گونجی صدا یہی ما رأیت الا جمیلا

ہیں شام و کوفہ میں کربلا میں یوں محو نظّارہ حق
کہ سانس بھی ہے پکارتی ما رأیت الا جمیلا

سناں پہ سب اقربا کے سر تھے بدن تھے ریگ تپاں پر
مگر سخن تھا یہ زینبی ما رأیت الا جمیلا

وہ شام شر وہ دمشق الحاد تھا جسے تو نے زینب
 بنا دیا شہ کا ماتمی ما رأیت الا جمیلا

تمہارا مرہون منت اسلام آج بھی کہہ رہا ہے
یہ کہنا ہمت تھی آپ کی ما رأیت الا جمیلا

ِ ہمیں بھی بنت نبی کی صورت یہ کہنا ہے آج صائب
خوشی کا مو قع ہو یا غمی ما رأیت الا جمیلا


صائب جعفری
قم ایران

Aug 24,2021 
8:50 PM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:26
ابو محمد

ہے دین کا سرمایہ ھیھات مناالذلہ
پیغام ہے کربل کا ھیھات مناالذلہ

شہ نے سوال بیعت کہہ کر یہی ٹھکرایا
ہم ہیں نبی کا کنبہ ھیھات مناالذلہ

چاہے کٹے گھر سارا قیدی بنے سب کنبہ
ظالم سے ہے ٹکرانا ھیھات منا الذلہ

سن حاکم یثرب مثلی لا یبایع مثلہ
کہہ دے خلیفہ سے جا ھیھات مناالذلہ

شب بھر رہے گا قیدی پر صبح دم آئے گا
حرِّ دلاور کہتا ھیھات مناالذلہ

وہ عصر کا ہنگامہ شبیر کا وہ سجدہ
بے نطق ہی.کہتا تھا ہیہات مناالذلہ

گو سخت وہ منزل تھی شبیر نے پر سر کی
بیٹا تھا اربا اربا ھیھات مناالذلہ

شش ماہہ تھا پیاسا تھا سوکھا گلہ لایا تھا
پر تیر تھا سہ شعبہ ھیھات مناالذلہ

شبیر کی نصرت میں شیر خدا کا ضیغم
شانے کٹا کر بولا ھیھات مناالذلہ

احلی عسل سے جسکو تھی موت وہ قاسم بھی
میدان میں ہے بکھرا ھیھات مناالذلہ

جون و حبیب و مسلم کلبی بریر و حجاج
شہ کا بنے ہیں فدیہ ھیھات مناالذلہ

عون و محمد قاسم عباس اکبر اصغر
اک اک کا دیکھا لاشہ ھیھات مناالذلہ

انصار شاہ دیں کے بے دم.پڑے ہیں رن.میں
شہ رہ گئے ہیں تنہا ھیھات منا الذلہ

خنجر لئے اک ظالم سوئے نشیب آتا ہے
سرور ہیں محو سجدہ ھیھات مناالذلہ

شبیر کی.گردن پر ضربیں لگاتا ہے شمر 
اور دیکھتی ہے بہنا ھیھات مناالذلہ

نوک سناں پر شہ کے سر نے کیا ہے اعلاں
آ دیکھ لے اے دنیا ھیھات منا.الذلہ

دربار میں کوفہ کے اور شام کے محلوں میں 
زنجیر کا تھا ںغمہ ھیھات من الذلہ

اعلاں ہےفتح سرور کا شام اور کوفہ میں
بنت علی کا خطبہ ھیھات منا الذلہ

دریا کنارے رن میں خون و عطش سے دیکھو
ہارا ہےباطل ہارا ھیھات منا الذلہ

عزت خدا کی ہے بس سن اے بن مرجانہ
ذلت ہے تیرا حصہ ھیھات منا الذلہ

مقتول باعزت ہے قاتل ذلیل و رسوا
یہ فیصلہ ہے رب کا ھیھات مناالذلہ

سرور تو سرور تھے پر بچوں سے بھی ظالم تو
بیعت نہیں لے پایا ھیھات مناالذلہ

ہم ہیں علی کے پیرو شبیر کے خادم ہیں
سو اپنا بھی ہے نعرہ ھیھات منا الذلہ

کیا خوب ہے اے صائب تلخیص عاشورا کی
شبیر کا یہ جملہ ھیھات منا.الذلہ


صائب جعفری
۲ محرم الحرام ۱۴۴۳
Aug 11,2021
 10:09 PM 
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:21
ابو محمد
میں ہوں حسینی مرا وقار ما لی امیر سوی الحسین
قید و شہادت ہیں افتخار ما لی امیر سوی الحسین
 
خوں رنگ فکر صنم تراش آواز خامہ ہے پر خراش
کہتی ہے یہ آنکھ اشکبار ما لی امیر سوی الحسین
 
راہ عمل میں بڑھو شتاب آئے نہ دل میں کچھ اضطراب
ہر اک کا ہو بس یہی شعار مالی امیر سوی الحسین
 
روشن کرو قلب کا ایاغ حق کا ملے گا تمہیں سراغ
دل سے کہو تم جو ایک بار مالی امیر سوی الحسین
 
سوتے ہیں انساں اگرچہ آج جاگیں گے کل جب یہ حر مزاج
گونجے گی گھر گھر یہی پکار مالی امیر سوی الحسین
 
کہتے تھے مسلم بن عقیل سن غور سے اے بن ذلیل
میں ہوں علی کے پسر کا یار ما لی امیر سوی الحسین
 
تشنہ لبی میں لڑے کمال اصحاب شبیر خوش خصال 
کھینچے ہوئے تھے سبھی حصار مالی امیر سوی الحسین
 
حیدر کاشش ماہہ شیر مرد ہنس کے قضا سے کرے نبرد
کہتا ہے پیکاں سے شیر خوار مالی امیر سوی الحسین
 
کچھ بھی نہیں ہے بجز ضیاع بہر قیامت مری متاع
ہاں بس اسی پر ہے اعتبار ما لی امیر سوی الحسین
 
اس میں تو صائب نہیں کلام مقبول حق ہے ترا سلام
جب ہے ردیف ایسی شاندار مالی امیر سوی الحسین
 
صائب جعفری
۱۰ اگست ۲۰۲۱
اول.ماہ محرم ۱۴۴۳
۱۲:۳۰ نصف اللیل
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:19
ابو محمد
وجود خدا کی بنا جو دلیل امیری حسین و نعم الامیر
خدا کا جو مظہر ہوا بے عدیل امیری حسین و نعم الامیر
 
فقط یہ نہیں نوع انساں کی بات یہ آواز ہے نغمۂ ممکنات
جوسنتے ہو کہتے ہیں یہ جبرئیل امیری حسین و نعم الامیر
 
لہو رنگ صحرا وہ شدت کی پیاس پکارے اے سید اے دیں کی اساس
تمہی خلد و کوثر ہو تم سلسبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
پئے دوستان خداوند مہر پئے دشمنان خداوند قہر
یہ ہیں معنئ عرش رب جلیل امیری حسین و نعم الامیر
 
وہ ہنگام سجدہ کے راز و نیاز کھلا جس سے خلق خدا پر یہ راز
ہے رب تک پہنچنے کی تنہا سبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
شہیدوں کو وہ روز تھا روز عید شہادت یہ دیتا تگا ہر اک شہید
تیرا قول حق ہے اے ابن عقیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تسلط کئے تھی جو باطل کی فوج ہے نوحہ کناں آج تک موج موج
فرات اور دجلہ ہیں تیرے علیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تیرے غم کی مجلس کا ہے یہ کمال ملک اشک موتی میں دیتے ہیں ڈھال
سبیلوں میں ہے پرتوے سلسبیل امیر حسین و نعم الامیر
 
ہدایت بسوئے صراط حمید یہ طوبیٰ لھم کی نمایاں نوید
اسی کے ہیں جو کہہ دے بے قال و قیل امیری حسین و نعم الامیر
 
جواں سال میت یا لاش صغیر احباء کا غم ہو یا فاقوں کے تیر
تأسّی میں تیری مصائب جمیل امیری حسین و نعم الامیر
 
 
جو عشق صمد کا ہے صائب سفیر وہی میرا مولا وہی میرا پیر
وہی جس کو اشکوں کا کہئے قتیل امیری حسین و نعم الامیر
 
صائب جعفری
قم ایران
۵ جولائی ۲۰۲۰
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:16
ابو محمد

انجمن ادبی اقبال لاہوری کی جانب سے  پندرہ روزہ طرحی شعری نشست بعنوان "مشق سخن" محترم احمد شہریار صاحب کی زیر سرپرستی قم ایران میں منعقد ہوتی ہے اس بار مصرع طرح:  "تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں" تھا جس.پر خاکسار نے بھی کچھ اشعار موزوں کئے وہ احباب کی.نذر کرتا ہوں.

دنیا سمجھ رہی ہے کہ دھوکا ملا ہمیں
صد شکر کہ حسین.کا سودا ملا ہمیں

ڈوبے ہیں انبساط کی چاہت میں زر پرست
اور ہم.ہیں خوش حسین پہ رونا ملا ہمیں

آسان منزلیں ہوئیں غیب و شہود کی
نام علی سے جونہی سہارا ملا ہمیں

اخلاص کی مثال جو ہم.ڈھونڈنے چلے
تو فاطمہ کے لعل کا سجدہ ملا ہمیں

علم و عمل کے سائے میں عرفان کردگار
کرب و بلا کے دشت میں.یکجا ملا ہمیں

بیچا ہے عشق شاہ کے بدلے میں.نفس کو
بس اس معاملے.میں نہ گھاٹا ملا ہمیں

پیاسے بھٹک رہے تھے سرابوں کے درمیاں
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"

خون حسین نے کیا سیراب اس طرح
پھر کربلا میں کوئی نہ پیاسا ملا ہمیں

مانگی بہار خلد تو از جانب خدا
عباس کے علم کا پھریرا ملا ہمیں

رومال فاطمہ کی ہیں زینت ہمارے اشک
کیسا گراں.بہا یہ اثاثہ ملا ہمیں

غازی کو آتا دیکھ کے کہنے لگے عدو
کاندھوں اپنے اپنا جنازہ ملا ہمیں

دنیا کے درد و غم سے رہائی کے واسطے
لبیک یاحسین وظیفہ ملا ہمیں

فرش عزا پہ آؤ تو خود جان جاؤ گے
کیسے خدا کی خلد کا رستہ ملا ہمیں

اللہ نبی علی و جناں حریت وفا
اک کربلا سے دیکھئے کیا کیا ملا ہمیں

دل کو طواف حج کی سعادت بھی مل گئی
جب نقش پا میں آپ کے کعبہ ملا ہمیں

صائب فقط فرات کا ساحل ہے وہ جہاں
شمس و قمر کا نور اکھٹا ملا ہمیں

صائب جعفری
۱۸ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 19 July 21 ، 02:49
ابو محمد

 سلام

دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی

پیاسوں کی کہانی پر خوں ناب قضا روئی

اٹھارویں منت بھی بڑھنے نہیں پائی تھی

اکبر کی جوانی پر خوں ناب قضا روئی

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 30 May 19 ، 15:57
ابو محمد

سلام

اس طرح کب باغ کوئی بھی لٹا ہائے حسین

جس طرح تیرے چمن کے پھول کملائے حسین

زینب و سجاد کا گریہ تھما  کب عمر بھر

خشک چشمِ غم سے آنسو خوں کے برسائے حسین

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 29 May 19 ، 03:11
ابو محمد

کوفہ میں شور کیسا یہ پروردگار ہے

اٹھا خدا کے گھر سے غموں کا غبار ہے

غم کی فضا زمانے پہ کیسی سوار ہے

ہے خوں چکاں شفق تو زمیں سوگوار ہے

دوڑو نمازیوں کہ ہوئے قتل مرتضیٰ

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 26 May 19 ، 19:58
ابو محمد



غزل عاشورای 

کربلا محور افکار حقیقت گردید

ہر شهید آیه ی قرآنِ مودّت گردید


ای مسلمان تو مکن خوف ز فوج باطل

یاد کن کرب و بلا فاتحِ کثرت گردید

۲ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 19 ، 11:24
ابو محمد