کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

منقبت

جو چل رہا سلیقے سے کاروبار تمام

ہے کائنات کا مولا پہ انحصار تمام

ثناء علی کی بیاں کر نہیں سکے گا کبھی

نہ لے جو مدح کو قرآن مستعار تمام

یہ علم و آگہی ایماں کی دولتِ بیدار

شرابِ حبِّ علی کا ہے یہ خما تمام

علی نے آکے بنایا ہے کعبہ کو کعبہ

علی سے پہلے بتوں کا تھا اقتدار تمام

لسانِ رب کا یونہی تو نہیں ملا ہے خطاب

علومِ رب کئے حیدر نے آشکار تمام

علم اٹھانا سعادت ہے ایسی جس کے لئے

تمام شب رہے اصحاب بے قرار تمام

علی کے عدل و شجاعت کی ہیں دلیل و نظیر

ابوتراب کی تلوار کے شکار تمام

فقط پلٹنے پہ سورج کے آپ حیراں ہیں

علی  تو ہے کہ پلٹا دے روزگار تمام

اتارلیں وہ ستارے جلا دیں موت کے بعد

"بساطِ کن پہ علی کو ہے اختیار تمام"

خدا نے نفس خریدا علم علی نے دیا

ہبہ علی کو کیا ایسے اقتدار تمام

ہے نور و نار سے خاکی علا بھی بد تر بھی

ہے عشق حیدرِ کرار پر مدار تمام

سوائے ان کے جو عشق علی سے تھے سر شار

نبی کے حلقہ بگوشاں تھے نابکار تمام

لحد کا خوں کا جسد کا دماغ کا دل کا

خدا نے ان کے عدو کو دئیے فشار تمام

ق

خدایا جائیں کہاں کچھ سمجھ نہیں آتا

خزاں چمن میں ہے آئی، ہوئی بہار تمام

تباہ حال ہے انسانیت اے رب علا

کہ ماند پڑنے لگا دین کا نکھار تمام

خدایا بہر علی جلد ہو ظہور امام

ہو عاشقانِ حقیقت کا انتظار تمام

حسینیت پہ جو جائے متحد دنیا

قسم خدا کی ابھی ہوگا خلفشار تمام

علی کے در کی گدائی پہ قیصری صدقے

شکوہِ قیصر و پرویز ہے نثار تمام

سلا کے قبر کے اندھیارے گھر میں چھوڑ گئے

سوائے حیدرِ کرار غم گسار تمام

علی سے مانگ کے لایا ہے بے نواء محسن

بساط لفظ و بیاں پر یہ اختیار تمام

۱۸ رمضان المبارک ۲۰۰۸

نظرات  (۱)

01 June 19 ، 19:10 ناشناس
شاید سن 2007 کا مصرع تھا واللہ اعلم بالصواب
پاسخ:
ہاں شاید

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی