کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

نعت

ہر خوشی آپ کے خیال سے ہے

منفعل کب یہ ماہ و سال سے ہے

اعتبارِ جہانِ رنگ و بو

مرتبط شاہِ خوش خصال سے ہے

دین و دنیا کی خلد و کوثر کی

ساری رونق ترے جمال سے ہے

شجرہِ طیبہ ہے آل تری

حق تر و تازہ اس نہال سے ہے

ان کو انسانیت سے ہے نفرت

چپقلش جن کو تیری آل سے ہے

آ گیا آپ کے اشارے پر

خود شجر چل کے ڈال ڈال سے ہے

ہاتھ پر آپ کے پڑھا کلمہ

سنگریزوں نے کس کمال سے ہے

کرنے باطل کی فکر کو باطل

چاند ٹکڑے ہوا جلال سے ہے

ہے دلیل خدا وجود ترا

غیر ممکن یہ احتمال سے ہے

آپ کی راہ پر سفر کرنا

ہے جو ممکن تو اعتدال سے ہے

ان پہ مرنا ہے صبر کا طالب

فائدہ خاک اشتعال سے ہے

آپ کے نقشِ پا سے دور ہے جو

دور وہ حق کے امتثال سے ہے

کیا ضرورت ہے لب کشائی کی

حال روشن زبانِ حال سے ہے

منتظر روح وصل کی خاطر

باندھے امید انتقال سے ہے

قبر دیدارِ یار کا ہے مقام

یوں خلش مجھ کو انفصال سے ہے

عشق ہے اک وبال جاں لیکن

کامیابی اسی وبال سے ہے

ہم ہیں عشاقِ احمدِ مختار

دل کہ معمور اس سوال سے ہے

آپ کہہ دیجے ہم کو اپنا، صدا

آ رہی قلبِ پائمال سے ہے

ہے حسب اور نسب ہمارا عشق

ہم کو نسبت یہی بلال سے ہے

گر چہ دولخت آپ سمجھے ہیں

پر سخن متحد کمال سے ہے

اس سوا ذکر کیا ہے صائب کا

صادق آل ہی کی آل سے ہے

۱۶ دسمبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ

موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/05/24

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی