کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

افسانہ (ترجمہ)

Tuesday, 14 May 2019، 01:38 AM

سید رضا ہاشمی کی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ

مترجم صائب جعفری

اپریل ۲۰۱۹


بنام خدائے رحمان و رحیم

#عرفان، ایک شادی شدہ مرد ہے جو اچانک ایک معشقہ میں گرفتار ہوجاتا ہے، اس کو ہدف کے حصول میں بہت سےواقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔

پہلا حصہ [ پہلا سین]

عرفان مڈل کلاس  سےتعلق رکھنے والا ایک شخص ہے اور پیشے کے اعتبار سے استاد اور شاعر ہے۔ عرفان کی شادی اپنی ایک دور کی رشتہ دار#صنم سے ہوجاتی ہے،  دونوں کے درمیان روابط دوستانہ ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے راضی ہیں، مگر عرفان کو ہمیشہ ایک خلا اور کمی کا ا حساس رہتا ہے۔ صنم جو ایک دیہات میں پلی بڑھی ہے وہ عرفان کے شاعرانہ احساسات اور اس کے تخلیقی ذہن کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ چیز  دن بہ دن ان دونوں کے درمیان خلیج کو بڑھاوا دیتی ہے، لیکن عرفان اپنے عہد و پیمان کی پاسداری اور وہ ذمہ داری جو صنم کی نسبت اس کے کاندھوں پر عائد ہے ، کے سبب اپنی اندرونی خلش کو ظاہر نہیں ہونے دیتا لیکن وہ ہروقت  خود سےلڑنے میں مصروف ہے اور اس رابطہ میں تبدیلی کا خواہاں ہے یہاں تک کہ اس کی زندگی کی کہانی میں# نرگس کا ظہور ہوتا ہے۔

ان ایام میں عرفان شدید ذہنی دباو، پریشانی اور مایوسی کا شکار ہے اور صنم بہت عرصہ سے اس جانب متوجہ ہے کہ عرفان پہلے سے بہت بدل گیا ہے  جس کی وجہ سےصنم اس کی طرف سے پہلے سے زیادہ حساس ہوگئی ہے ایسے میں عرفان اپنی پریشان حالی کے عالم میں ایک دن اپنے اور نرگس کے رابطے کے بارے میں بول پڑتا ہے۔

وہ اپنی  پوری کوشش کرتا ہے کہ صنم کے احساسات کو اجاگر کرے اور اپنےاور نرگس کے رابطے کی علتیں تراشے تاکہ وہ اس معاملے کی خود تحقیق کر کے گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے۔ عرفان صنم کو یقین دلاتا ہے کہ وہ اس کو  بہت چاہتا ہے اور اس کے ساتھ زندگی گذارنا اس کی خوش بختی ہےلیکن اس حال میں اس کے لئےممکن نہیں کہ وہ اپنے ضمیر کی عدالت سے چشم پوشی کر سکے اور نرگس جو کہ ایک تنہا اور بیمار خاتون ہے ، کو اس کے حال پر چھوڑ  دے۔

صنم ، عرفان پر اپنے اندھے اعتماد کی وجہ سے اس مسئلے میں کسی حد تک عرفان کی باتوں کا یقین کر لیتی ہے اور نرگس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔

عرفان اس بات کو مان لیتا ہے اور صنم سے نرگس کا اس حال میں تعارف کرتا ہے کہ جب وہ ہیلچئر پر بیٹھی ہے  اور اپنے سر اور ہاتھوں کو حرکت دینے سے قاصر ہے۔

صنم یہ عالم دیکھ کر بہت متاثر ہوتی ہے  اور اپنی رقت قلبی اور مہربانی کے ہاتھوں مجبور ہوکر فیصلہ کرلیتی ہے نرگس کو اپنی زندگی میں داخل کرلے اور خود اس کی دیکھ بھال کا بیڑا اٹھائے۔

دوسرا حصہ [ دوسرا سین]

"وضاحتیں"

نرگس عرفان کی جوانی کی محبت ہے، وہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی اور  احساسات میں ایک دوسرے کے  بہت نزدیک ہیں اور ایک دوسرے کی پسند و ناپسد و سلیقہ زندگی کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ماضی میں ان کے درمیان  ہماہنگی اور  خالص قلبی لگاو کا رشتہ رہا ہے۔ نرگس خود ایک حساس، متفکر اور شعر و ادبیات سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی ہے، سالوں قبل ہی دونوں شادی کا ارادہ کرچکے تھے مگر نرگس  کے گھر والے اس ملن پر تیار نہیں ہوئے۔

عرفان اور  نرگس کی ایک ہوجانے کی  ضد اور مزاحمت  بے ثمر رہتی ہے۔ اس واقعہ کو  ایک مدت گذر جاتی ہے، نرگس بھی اپنے گھر والوں کے اصرار پر #جہان نامی ایک مرد سے شادی کرلیتی ہے۔

جہاں ایک عام سا آدمی ہے جو زنانہ احساسات اور تفکر سے نا آشنا ہے، وہ ایک عام سےگھرانے میں پیدا ہوا  ہے اور وہ شادی شدہ زندگی ہے کوئی خاص توقع نہیں رکھتا بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح  سادہ اور عام سی زندگی گذارنے کا خواہاں ہے۔

نرگس اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود جہان کے ساتھ بہتر ازداجی تعلقات برقرار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

یہ مشکلات اور پریشانیاں اس بات کا سبب  بنتی ہیں کہ نرگس اور عرفان اپنے گذشتہ روابط کا شدت سے احساس کرنے لگیں اور غیر ارادی طور پر ان کے قدم ایک دوسرے کی جانب اٹھ جائیں۔

 نرگس کے ساتھ عرفان کا رابطہ ہرچند خوشآیند ہے لیکن وہ کوشش کرتا ہے کہ اس تعلق کی نفی کرے اور اس سے فرار کی راہ اختیار کرےکیونکہ ایک طرف عرفان ایک باتربیت اور شریف انسان ہے تو دوسری طرف شریعت کا پابند بھی ہے اس پر قلبی اعتقاد رکھتا ہے، 

لیکن نرگس کو عرفان سےقطع تعلق  کا یارا نہیں ہے، وہ جہان کو کسی قسم کا دھوکہ نہیں دینا چاہتی  اس لئے جہان سےطلاق کا تقاضہ کر دیتی ہے ، جہان چار و ناچار اس کی خواہش کےآگےگھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ 

باوجود اس کے عرفان، نرگس کا عاشق ہے وہ صنم کے ساتھ وفادار رہنا چاہتا ہے سو وہ نرگس کی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے، لیکن نرگس نےاپنےبچپنے ہی سے کئی ایک نفسیاتی مشکلات جھیلی ہیں اور انہی مشکلات کے سائے میں جوان ہوئی ہے اور اب  اس کے احساسات نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے اور وہ عرفان کی منطقی اور حقیقی دنیا کے ادراک سےقاصر ہے وہ انہی نفسیاتی الجھنوں کی وجہ سے ہروقت خود کشی کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔

 نرگس اپنے طاقت فرسا اصرار اور شدید ضد و ہٹ دہرمی  کا عرفان کو شکار بنا لیتی ہے۔ گویا کہ اس کی جنونی ضد اختتام ناپذیر ہے، چند سال اسی حال میں گذر جاتے ہیں

تیسرا حصہ [تیسرا سین]

فلش بیک [ماضی کےجھروکے]

صنم ، نرگس کے مفلوج ہونےکی وجہ دریافت کرتی ہے، عرفان نرگس کی جنونی کیفیت اور اپنے انکار کا تذکرہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کا جنون اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ایک دن ایک حادثہ میں وہ مفلوج ہوگئی۔ صنم یہ واقعہ سن کر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔

مگر جو ماجرہ عرفان نے صنم کو سنایا بات صرف اتنی نہیں تھی، نرگس اس حادثہ میں زندہ ضرور بچ گئی تھی مگر عرفان کو یاد ہے کہ  کس طرح وہ اس حادثہ سے متاثر ہوکر، خود کو اپنے ضمیر کا مجرم جان کر، نرگس کی خواہش کے آگےجھک جاتا ہے اور کس طرح یہ دونوں مل کر نرگس کے عرفان کی زندگی میں داخل ہونے کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور طےیہ پاتا ہے نرگس ایک اپاہج جو وہیلچئر سےاٹھ نہیں سکتی، کا کردار ادا کرے تاکہ ایک طرف صنم جیسی دیہاتی اور جلد یقین کر لینےوالی سادہ مزاج خاتون کے مہربانی کے احساس کو چھیڑا جائے اور دوسری طرف صنم اپنا اور نرگس  کا تقابل بھی نہ کرے اور یوں نرگس آہستہ آہستہ عرفان کی زندگی کا حصہ بن جائے۔۔

چوتھا حصہ [چوتھا سین]

عرفان جو کہ اب صنم کی طرف سے مطمئن ہوچکا ہے ، ہر روز بہانہ بہانہ سے زیادہ سےزیادہ وقت نرگس کے ساتھ گذارتا ہے اور اس کی جانب ہی اپنی توجہ مبذول رکھتا ہے۔ عرفان کا یہ رویہ صنم کو چونکا دیتا  ہے اور اس کے ذہن میں ہمیشہ سےزیادہ سوالات جنم لیتے اس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں  اور اور چھٹی  حس بیدار ہوجاتی  ہے، انہی دنوں میں، عرفان کےمشکوک رویہ سےصنم پر یہ راز کھلتا ہے کہ نرگس کبھی اپاہج رہی ہی نہیں۔

اس مسئلہ کا جان لینا صنم اور عرفان کےلئے برے نتائج کا حامل ہوتا  ہے اور نوبت دونوں کی مشترکہ زندگی کے خاتمہ تک آن پہنچتی ہے۔ صنم کی سمجھ کے مطابق اب تمام چیزیں ختم ہو چکی ہیں اور وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اب عرفان کی ساتھ زندگی گذارنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب اس کا عرفان سے بھروسہ مکمل طور پر اٹھ چکا ہے اور عرفان  کی اپنا اعتماد بحال کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہیں، دوسری طرف  نرگس جو عرفان کی جانب سےتعلق توڑ لینے پر دوبارہ نفسیاتی دباو کا شکار ہوجاتی ہے، پھر سےخودکشی کی کوشش کرتی ہے۔ ان سب کے درمیان جو ان  تمام واقعات  کاتنہا شاہد ہے وہ خود صنم ہے  اور وہ تمام جنگ جو اس کے اپنے اندر  جاری  ہے، کے باوجود وہ ایک فیصلہ کرتی ہے کہ نرگس کو نجات دے۔ وہ نرگس کو اسپتال پہنچاتی ہےاور عرفان سےکہتی ہے وہ اس سے جا ملے۔ 

اسپتال کا ڈاکٹر نرگس کی خطرناک بیماری کے بارے میں وضاحت کرتا ہے ، نرگس ایک بار  پھر موت کے منہ سےبچ نکلتی ہے ،  عرفان اور صنم ایک دوسرے کے پہلو میں چلتے ہوئی نرگس  کو وہیلچئر پر بٹھا کر اپنے گھر  لے آتے ہیں۔


نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی