دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی(سلام)
سلام
دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی
پیاسوں کی کہانی پر خوں ناب قضا روئی
اٹھارویں منت بھی بڑھنے نہیں پائی تھی
اکبر کی جوانی پر خوں ناب قضا روئی
جو سیرت و صورت میں تھا مثل پیمبر کی
اس احمدِ ثانی پر خوں ناب قضا روئی
اصغر کے تبسم کی تقریر میں پوشیدہ
الفاظ و معانی پر خوں ناب قضا روئی
بے شیر نے گردن پر پیکانِ ستم کھایا
اصغر کی سنانی پر خوں ناب قضا روئی
شبر کی وصیت کو قاسم نے نبھایا تھا
اس یوسفِ ثانی پر خوں ناب قضا روئی
پامال تنِ نوشہ گھوڑوں سے ہوا رن میں
پوشاک شہانی پر خوں ناب قضا روئی
مارا گیا دریا پر سقائے سکینہ بھی
مشکیزے پہ پانی پر خوں ناب قضا روئی
عبداللہ کے پیاروں پر زینب کی کمائی پر
جعفر کی نشانی پر خوں ناب قضا روئی
شبیر کی گردن پر رک رک کے چلا خنجر
خنجر کی روانی پر خوں ناب قضا روئی
پیا سا ہی موا کنبہ سب ساقئِ کوثر کا
اس تشنہ دہانی پر خوں ناب قضا روئی
لاشوں پہ شہیدوں کے تھیں اشک فشاں زہرا
خوں نابہ فشانی پر خوں ناب قضا روئی
برباد بنی زہرا کربل میں ہوئے محسن
پر درد کہانی پر خوں ناب قضا روئی
۱۱ محرم الحرام ۲۰۰۵ کراچی