کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 

نوحہ

چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے

اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے

لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر

نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے

یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے

تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے

ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت

نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے

ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا

کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے

سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر

دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے

خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ

ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے

مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا

فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے

لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب

ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے

۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی