عباس کے مرنے سے کمر ٹوٹ گئی ہے(نوحہ)
- نوحہ
ہر آس مری نورِ نظر ٹوٹ گئی ہے
عباس کے مرنے سے کمر ٹوٹ گئی ہے
آتا ہی نہیں کچھ بھی نظر تم ہی صدا دو
آواز اے ہم شکلِ نبی اپنی سنا دو
پھر صورتِ محبوبِ خدا ہم کو دکھا دو
ہم ڈھونڈتے ہیں تم کو نشاں اپنا بتا دو
اب قوت تنویرِ بصر ٹوٹ گئی ہے
کیوں ہاتھ رکھا سینے پہ ہے تم نے اٹھا کر
کیا درد ہے سینے میں بتا وو علی اکبر
ہم نادِ علی پڑھ کے کریں دم مرے دلبر
بابا کو دکھاوو تو ذرا ہاتھ ہٹا کر
نیزے کی انی دل میں اگر ٹوٹ گئی ہے
جس وقت سوئے نہر سدھارا مرا سقا
اس وقت سے آنکھوں میں سمایا ہے اندھیرا
اب تھامے جگر تم نے بھی آنکھوں کو ہے پلٹا
سوچا بھی نہ رہ جائے گا شبیر اکیلا
اب جینے کی خواہش بھی پسر ٹوٹ گئی ہے
اٹھارہ برس پالنے والی سے کہوں کیا
مادر سے کہوں کیا جو ترا پوچھے وہ بیٹا
کس طرح تجھے خیمے میں لے جاوں میں تنہا
مرجائے گی یہ حال جو دیکھے گی سکینہ
ہمت مری اے رشکِ قمر ٹوٹ گئی ہے
اس دشت میں شبیر کو سب چھوڑ گئے ہیں
عباس تو پہلے ہی کمر توڑ گئے ہیں
انصار و احبا سبھی منہ موڑ گئے ہیں
سب لخت جگر پیاس سے دم توڑ گئے ہیں
اک تم سے تھی امید مگر ٹوٹ گئی ہے
اک اصغرِ بے شیر ہے اک عابدِ بیمار
نے فوج بچی ہے نہ رہا فوج کا سالار
شبیر یہاں فرد وہاں لشکرِ خونخوار
ہے بعد مرے کون مرے گھر کا طرف دار
یہ سوچ کے اب تاب جگر ٹوٹ گئی ہے
اندازِ وغا باپ کا تم نے نہیں دیکھا
اس لشکرِ باطل کو پلٹ دیتا اکیلا
تم دیکھتے اک پیاسے کے لڑنے کا سلیقہ
پر اب نہیں جینے کی مرے دل میں تمنا
کیا جنگ کروں جب کہ سپر ٹوٹ گئی ہے
ناگاہ صدا گونجی یہ اے صائب تحریر
پیاسے پہ چلی سجدہِ معبود میں شمشیر
زینب جو گئیں قتل گہہِ شاہ میں دل گیر
سنتی تھیں صدا دیتی ہے یہ گردنِ شبیر
اکبر کی جدائی میں کمر ٹوٹ گئی ہے