کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 نوحہ

بہارِ باغِ رسول مقتل میں شاہِ دیں یوں لٹا رہے ہیں

حسین دل کے لہو سے اپنے زمینِ مقتل سجا رہے ہیں

گری ہیں غش کھا کے در پہ زینب اٹھے ہیں سجاد غش سے یکدم

صدائے ہل من کو سن کے اصغر زمیں پہ خود کو گرا رہے ہیں

حبیب و قاسم کو رو رہے ہیں اٹھا رہے ہیں جری کے بازو

لحد میں اک بے زباں پسر کو لہو میں ڈوبا سلا رہے ہیں

خلیل ذبحِ عظیم دیکھو نہ چشم بستہ نہ دست لرزاں

حسین لاشہ جواں پسر کا اٹھا کے مقتل سے لا رہے ہیں

جو پوچھا زینب نے بعد تیرے حرم پہ گذرے گی کیا اے بھائی

جلیں گے خیمے چھنے گی چادر حسین رو کر بتا رہے ہیں

طمانچے کھائے گی جب سکینہ چھنیں گے گوہر جلے گا کرتا

سنبھالنا اے بہن امانت جو سونپ کر تم کو جارہے ہیں

کبھی ردا اپنی دیکھتی ہے کبھی وہ تکتی ہے اپنے شانے

تڑپ رہی ہے رسول زادی حسین مرنے کو جا رہے ہیں

سلامِ آخر سنا تو  بابا سے آن لپٹی عطش کی ماری

سلا کے سینے پہ شہ سکینہ کو اپنے آنسو بہا رہے ہیں

اے غازیو اے دلاورو تم کہاں ہو آو ہوئی قیامت

حسین دشتِ بلا میں تنہا کھڑے ہیں تم کو بلا رہے ہیں

رکابِ توسن کو کون تھامے، تو کون شمشیر آ کے باندھے

سوار کون اب کرائے آکر حسین مقتل کو جا رہے ہیں

حسین سجدے میں سر رکھے ہیں چلا رہا ہے لعین خنجر

صدائے زہرا یہ آ رہی ہے حسین سر کو کٹا رہے ہیں

فلک پہ گہنا گیا ہے سورج، زمین کو آندھیاں ہیں گھیرے

طبق تہ و بالا ہو رہے ہیں فرشتے بھی خاک اڑا رہے ہیں

وہ کرکے پامال رن میں لاشہ حسین ابنِ علی کا صائب

چڑھا کے نیزے پہ شاہ کا سر لعین خوشیاں منا رہے ہیں

۵ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ

 

نظرات  (۳)

21 June 19 ، 14:32 ناشناس
ماشاء اللہ
21 June 19 ، 14:33 ناشناس
جزاک اللہ
21 June 19 ، 14:34 ناشناس
خدا غم حسین کے سوا غم.نہ دے

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی