کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

حد ہے

Saturday, 14 January 2023، 10:42 PM
*جہاں فرشتوں کی خاطر بنی ہوئی حد ہے*
*وہاں بھی خاک ہماری پہنچ گئی حد ہے*
 
*ہم ایسے سادہ مزاجوں کے ساتھ دنیا کو*
*منافقت کی ضرورت پڑی ـ کوئی حد ہے*
 
*مجھے پھراتے رہے تم دیار ظلمت میں*
*تمہیں خبر تھی کہاں پر ہے روشنی حد ہے*
 
*ہوا تو خیر مخالف رہی ہمیشہ مگر*
*خود اپنے ہم بھی نہ حامی رہے یہی حد ہے*
 
*جنہیں ازل سے تمنا ہے موت کی میری*
*انہی کے ساتھ گذرتی ہے زندگی حد ہے*
 
*غموں پہ رقص کریں اور خوشی میں روئیں نہ کیوں؟*
*کہ غم خوشی میں نہاں غم میں ہے خوشی حد ہے*
 
*وہ حریت کا مبلغ ہے آج کل جس کا*
*ہے اختیار فقط قید بے بسی، حد ہے*
 
*جسے زمانہ سمجھتا ہے بے ضرر مجنوں*
*اسے ہے عشق کے رازوں کی آگہی حد ہے*
 
*ہر ایک رنگ میں اسکا ہی رنگ ہے لیکن*
*ہزار جلووں کا حاصل نہیں دوئی حد ہے*
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ـ ایران
12:55 AM 
Nov 16,2022

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی