نگاہ و دل کی سازش ہے خدا کی مہربانی ہے(منقبت)
نگاہ و دل کی سازش ہے خدا کی مہربانی ہے
سرِ قرطاس خونِ دل کی یہ شعلہ بیانی ہے
وہ جس کے کِلک سے شمشیرِ برّاں پانی پانی ہے
دیارِ تیغ سب اس کے قلم کی راج دھانی ہے
یہ ہے تحریرِ یزدانی، صحیفہ آسمانی ہے
حسن شکل و شمائل میں نبی کا ہم معانی ہے
علی کا نقشِ امکانی، محمد کی جوانی ہے
حسن ابنِ علی عمراں کی عظمت کی نشانی ہے
شہید لوحِ حق ہے شاہدِ کلِکِ خداوندی
ہے سرِ کن فکاں، تشریحِ رمز لا مکانی ہے
عجب ہے عشق کی تاثیر، بس تحریک ہی تحریک
جمود اس میں نہیں کوئی سراسر زندگانی ہے
بغیر از مجتبیٰ تطہیر کی تفسیر ناقص ہے
ضمیر ہل اتیٰ خلقِ حسن کی ترجمانی ہے
تقابل کیا ہو ابنِ فاطمہ کا ابنِ ہندہ سے
کہ یہ نورِ حقیقت اور وہ جھوٹی کہانی ہے
قلم کی ایک جنبش سے شکستِ فاش دی تجھ کو
امیر شام اب تجھ کو فقط ذلت اٹھانی ہے
وہاں تھی فتحِ مکہ اور یہاں ہے کربلا روشن
حسن کی صلح میں صلحِ نبی کی ترجمانی ہے
فقط ابدان کو محکوم کر پایا امیرِ شام
مگر ابنِ علی کی روح و دل پہ حکمرانی ہے
حقیقت میں ہے وہ حق کے نبی پر معترض جس کو
امیر شام سے الفت حسن سے بدگمانی ہے
لگا کر لاکھ بے بنیاد الزامات شبّر پر
اموّی تاج کو اپنی پشیمانی چھپانی ہے
تخیُّل کو تحیُّر کے بھنور سے کھینچ لایا ہوں
تصدُّق آلِ اطہر کا میری یہ خوش بیانی ہے
عطائے خاص ہے آل نبی کی یہ ثنا خوانی
کرم کرنا بنی ہاشم کی اک عادت پرانی ہے
تمنا ہے کہ مدحت مجتبیٰ کی کرسکوں محسن
کہاں مقصد میرا نام و نمود و قدر دانی ہے
۱۲ رمضان ۲۰۰۹