کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 منقبت

وائے حسرت کہ نہیں ذوقِ عقیدت کامل

ورنہ وہ آج بھی ہیں لطف و کرم پر مائل

ہر نَفَسْ الجھا ہوا نَفْسْ کے جنجال میں ہے

حد مگر یہ ہے نظر آتا نہیں کوئی خجل

زد پہ طوفانِ بلا خیز کی کشتئِ حیات

اور بہت دور نگاہوں سے مری ہے ساحل

مشکلوں سے نہ نکلتا میں بمشکل بھی کبھی

حل نہ کرتے جو وہ ہربار مری ہر مشکل

ان کا یہ فیض ہی کیا ہم ہے کہ ہم زندہ ہیں

ورنہ حالات تو وہ ہیں کہ ہوں سانسیں قاتل

جلوہِ جاناں تو ہر سمت عیاں ہے لیکن

اپنی آنکھیں ہی نہیں دید کے شاید قابل

ان کو اک بار پکارو وہ چلے آئیں گے

ساتھ لفظوں کے اگر دل کی صدا ہو شامل

خواہشِ دہر بہت دور کہیں چھوڑ آو

کفِ اخلاص پہ درکار ہے نذرانہِ دل

جاں ہو جائے نثارِ قدم جانِ علی

تیرے دیوانے کی کیا اس کے سوا ہے منزل

دونوں عالم کی سعادت مجھے حاصل ہو جائے

آپ کے در پہ چلا آوں جو بن کر سائل

زندگی مانگتی ہے جہد مسلسل محسن

حسرتا، دردا، دریغا سے نہیں کچھ حاصل

۱۳ شعبان ۲۰۰۷ کراچی


نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی