کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۶ مطلب با موضوع «مضامین» ثبت شده است

*امر بیل*
ایک درخت تھا پھل دار پھول دار سرسبز و شاداب اس پر دو پرندوں کے آشیاں تھے سالہا سال پرسکون زندگی گذرتی رہی کہ ایک روز اس درخت کے کنارے امر بیل اگ آئی نحیف و زار و لاغر.
 درخت نے امر بیل سے کہا: اے امر بیل تو میرے سہارے کیوں کھڑی نہیں ہوجاتی؟
امر بیل کی تو جیسے دلی مراد برآئی اور امر بیل نے آہستہ آہستہ درخت سے لپٹنا شروع کردیا. درخت بیچارے کو خبر ہی نہ تھی کہ امر بیل اس کے ساتھ کیا کرے گی.
 کچھ دن بعد امر بیل خوب پھلنے پھولنے لگی اور درخت کی شادابی ماند پڑنے لگی درخت کے پھول مرجھانے لگے اور پھل سوکھنے لگے تو امر بیل نے درخت کے کان بھرنے شروع کردئیے اور اپنے پنپے اور اپنی بقا کے لئے درخت کو ہزاروں جھوٹے قصے سنادئیے.
 درخت امر بیل کی باتوں کا یقین کربیٹھا اور ایک دن درخت پر آشیاں بنائے پرندوں سے کہنے لگا: دیکھوں میں بوڑھا اور کھوکھلا ہوگیا ہوں اور کے ذمہ دار تم دونوں ہو. تم میرے برگ و ثمر کھا گئے ہو تم میرے پھولوں کے دشمن ہو تم اور تمہارے شور شرابے نے مجھے کھوکھلا کردیا ہے اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ درخت نے کہا
 دونوں پرندے ورطہ حیرت میں تھے شدید دکھ اور تکلیف میں مگر ان کے پاس چارہ کار کچھ نہ تھا... دونوں نے عاقبت اسی میں جانی کہ بوڑھے شجر سے اپنا آشیاں لے کر پہاڑوں اور جنگلوں کی خاک چھاننے نکل پڑے
 پرندوں کے اڑنے کے بعد ایک دن اس درخت کے پاس سے ہرن کا گذر ہوا ہرن نے تباہ حال درخت کو دیکھا اور شاداب امر بیل کو تو درخت کی تباہی کا سبب سمجھ گیا اور درخت سے کہنے لگا: بھائی درخت یہ امر بیل تمہیں کھا گئی ہے تم اس کو خود سے جدا کیوں نہیں کردیتے تو درخت نے جواب دیا
 اے ہرن میری اس حالت کے ذمہ دار وہ پرندے ہیں جو.مجھے کھا گئے کھوکھلا کرگئے. اس امر بیل کے تو مجھ پر ہزاروں احسان ہیں  اور یہ احسان کیا کم ہے اس نے مجھے چاروں طرف لپٹ کر مجھے تھام رکھا ہے ورنہ تو میں کب کا گر چکا ہوتا. کاش میں نے ان پرندوں کو.گھونسلا بنانے کی اجازت نہ.دی ہوتی..............
۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 23:03
ابو محمد

امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ

مقالہ نگار: سید صائب جعفری

حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران

سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳

مقدمہ

 ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر  سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر  کے مقابلہ  میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔  آئمہ علیہم السلام چونکہ  کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔ 

آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں  اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام  محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت  بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔ 

اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے  تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔

یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا  کرکے واضح کیا۔

اس  مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔

مسئلہ کا بیان

خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو  امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو  کو سن  کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔ 

پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔

امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔

امام نقیؑ  کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے  اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔

امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔  اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم  غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔

اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔

۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟

۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟

۳۔ امام  علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟


 

امام نقی  علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی  حالات

شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق    کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت  ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام  نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور  آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 July 22 ، 04:21
ابو محمد

مرثیہ 

تحقیق و تدوین: سید صائب جعفری

مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت یا شہادت  پر اس کے اوصاف بیان کر کے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ اردو میں مرثیہ کا لفظ میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے دیگر رفقا کی شہادت کے بیان سے مخصوص ہو گیا ہے۔ دیگر لوگوں کی موت پر کہے جانے والے مرثیوں کو شخصی مرثیہ یا تعزیتی نظم کہا جاتا ہے۔

مرثیہ کے اجزائے ترکیبی

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 July 20 ، 17:43
ابو محمد

گیا حیات کو اس طرح سرخرو  کرکے

تحریر : صائب جعفری

۱۱ فروری ۲۰۱۴

زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 May 19 ، 03:53
ابو محمد


فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


خلاصہ:

  امتحانات الہی اور نزول بلا ایک مہم مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہر دور میں ہے ۔بالخصوص وہ امتحانات جو خدا وند کریم نے اپنے اولیاء سے لئے ان کا سبب اور فلسفہ کیا ہے؟  خدا عالم کل ہونے کے باوجود آخر کیوں امتحان لیتا ہے ؟اور ان امتحانات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟۔اس تحقیق میں امتحان اور نزول بلا کے عالم مادہ کا خاصہ ہونے کے عنوان سے زیادہ بحث نہیں کی گئی کیوں کہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر دقیق تحقیق کی ضرورت ہے اس تحقیقی میں حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ عوام الناس میں امتحان و بلا سے متعلق رائج سوالات کا جواب مقالہ کی حدود اور وسعت کو مد نظر رکھ کر دیا جائے اور اپنے بیان پر آیت اور روایت کے ذریعے ثبوت فراہم کیا جائے اور اس بات کو واضح کیا جائے کہ اولیائے الہی کا امتحان گناہگار بندوں کے امتحان سے علیحدہ ہوتا ہے ہر چند ان کے مراتب خدا  کی جانب سے ان کو اول عنایت ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسوٹی پر کسا جاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا نے جو فیصلہ اپنے علم کے مطابق کیا تھا وہ درست تھا اور اولیاء انہی مراتب کے حقدار تھے

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 May 19 ، 23:26
ابو محمد

 

 

 

https://m.youtube.com/channel/UCbSiNuE-cWAzb4QM2npzMhg

صائب جعفری کی شاعری اور نثری افکار

 

https://m.youtube.com/channel/UCoOi1aJEfDW8z2lMRuxygRQ

ادبیات اور دینیات کے دروس کا چینل

 

دونوں چینلز کو.سبسکرائب لائیک اور شئیر کریں

عیوب قافیہ

جمع و تدوین :صائب جعفری

۱۔ایطا یا شائیگاں

جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک  ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں  ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع  میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل  اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں  کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج  ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو  بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں  یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں   الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 15 April 19 ، 17:23
ابو محمد