کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر

رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر

شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر

مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر

حسن والوں کی ادائیں بھی عجب ہوتی ہیں

لوٹ لیتے ہیں سبھی کو یہ شناسا بن کر

کوہکن بن نہ سکا لے کہ جوئے شیر کی آس

رہ گیا ہوں میں خرابوں کا فسانہ بن کر

اک نجومی نے کہا تھا کہ گذر جائے گا

نہ گذر جاوں کہیں میں ہی وہ لمحہ بن کر

ٹوٹتا بھی ہے بکھرتا بھی سنورتا بھی ہے

وقت کے ہاتھوں میں ہر شخص کھلونا بن کر

کہہ تو دوں بات میں دل کی یہ مگر ڈر ہے مجھے

میرا ہر کام ہی بگڑا ہے ذرا سا بن کر

نام بھی جس کا چھپا رکھا تھا صائب تو نے

آج مشہور ہے وہ تیرا حوالہ بن کر

۲ اگست ۲۰۱۲ کراچی


موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/05/22

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی