کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 منقبت

ہے راستہ خدا سے یہی اتصال کا

تابع عمل ہو عشقِ علی کے خیال کا

انسان قدسیوں سے سوا پا گیا کمال

قطرہ پیا جو عشق کے آبِ زلال کا

کعبہ سجائے بیٹھا ہے سینے پہ آج بھی

تمغہ ابوتراب کے شوقِ وصال کا

رخنہ نہ ڈال لفظِ نزول اور ظہور سے

میلا ہے جمال، علی کے جلال کا

ہے لا محالہ شک اسے خالق کی ذات پر

"جو معتقد نہیں ہے علی کے کمال کا"

روزِ غدیر عرصہِ تکمیل دینِ حق

باطل کا حق سے نقطہ ہے یہ انفصال کا

سید علی کی شکل میں صد شکرِ کرگار

پایا ثمر ولایتِ حق کے نہال کا

نم ناک چشم جب ہوئی گویا علی کے ساتھ

کب لفظ درمیان میں  آیا محال کا

صائب علی کے عشق نے سکہ جما دیا

دشتِ تخیلات میں میرے غزال کا

۳۰ مارچ ۲۰۱۸


نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی