نوحہ/حکایت
میں نے بابا سے کہا کیجے حکایت بابا
عہدِ رفتہ کسی بچے کا کہئے قصہ
بولے بابا کہ ہے یہ ذکر بہت پہلے کا
ایک بچہ تھا جو خیمے میں تھا گریاں پیاسا
نوحہ
نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں
پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں
فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں
سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں
نوحہ
چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے
اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے
لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر
نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے
یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے
تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے
ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت
نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے
ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا
کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے
سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر
دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے
خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے
مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا
فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے
لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب
ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے
۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ
نوحہ
جاگو عباس میرے یارِ وفا دار اٹھو
مجھ کو تنہا نہ کرو میرے علمدار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کے مینار اٹھو
میرے عباس اے دلدار اے کرار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کےمینار اٹھو
تیرے آنے کی لگائے ہوئے امید و آس
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے
دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے
تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد
اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے
ہو سکے تو یہ وصیت ہے نبھانا اے علی
غم میں زہرا کے نہ دل اپنا جلانا اے علی
دمِ رخصت یہ فقط آپ سے کہنا ہے علی
رات کے وقت مجھے غسل و کفن دینا تمہی
ہو جنازے میں نا شامل میرے کوئی بھی شقی
قبر بھی دنیا سے رکھنا اے علی تم مخفی
بہرِ رب میری وصیت کو نبھانا اے علی