خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا(منقبت)
Friday, 24 May 2019، 02:21 AM
منقبت
خدا کے گھر سے اٹھا ہے خمار حیدر کا
ہوا حرم کو رواں مے گسار حیدر کا
خزاں کو راہی ملکِ عدم بنانے کو
سنارہی ہے قصیدہ بہار حیدر کا
خوشی سے کھل اٹھی بر آئی حسرتِ دیدار
جدارِ کعبہ کو تھا انتظار حیدر کا
جلایا مردہ بھی پلٹایا شمس بھی لیکن
عبودیت ہی رہی افتخار حیدر کا
وہ مملکت کو سلیماں کی دان کیوں نہ کریں
بساطِ کن پہ ہے جب اختیار حیدر کا
وہ کنہِ عالم تجرید یہ تہہ تجسیم
بشر پہ کیسے کھلے اقتدار حیدر کا
علی کے قدموں سے بہرِ خلائق آج بھی ہے
مثالِ خانہِ کعبہ مزار حیدر کا
ہے بات سادی، ہو نام و نسب لباس کوئی
ہوا نہ دوست کوئی نابکار حیدر کا
پسندِ خاطرِ مومن ہے اس لئے بھی موت
پئے وصال لحد ہے قرار حیدر کا
یہ سوچ کر ہے بہت مطمئن دلِ صائب
ہے عرضِ عالمِ امکاں دیار حیدر کا
۳۰ مارچ ۲۰۱۸
19/05/24