کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہے
یہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے

حق کی تلاش کا یہ میں ثمر ہے پایا
اب میری راہ میرے اپنوں سے بھی جدا ہے

دشنام دے کے در سے دھتکار دے مجھے کیا
میں نے تو حق کہا تو ناحق خفا ہوا ہے

شاعر کا سر قلم ہونے کا کریں گے ساماں
قرطاس اور قلم نے یہ فیصلہ کیا ہے

غسال و گورکن کو فرصت کہاں کہ دیکھیں
انسانیت کا لاشہ بے گور ہی پڑا ہے

جاؤ میاں، بتاو، یہ بھی ہے بات کوئی
شمعیں جلا جلا کر بس دیپ بجھ گیا ہے

شاید کوئی نہ سمجھے شاید سمجھ لے کوئی
سازوں پہ دل کے صائب، اردو غزل سرا ہے

صائب جعفری
۱۳ اگست ۲۰۲۰

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی