کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۴ مطلب در اکتبر ۲۰۲۱ ثبت شده است

حسینیہ امام صادق علیہ السلام میں منعقدہ طرحی محفل مقاصدہ بسلسلہ جشن.میکاد صادقین علیہما السلام کے لئے لکھا گیا گیا طرحی کلام.....

ہستی کے گلستاں میں جو دم دیکھ رہے ہیں
سب آپ کے الطاف بہم دیکھ رہے ہیں

ہیں واسطہ در فیض حقیقت میں محمد
ہر ذرہ پہ یوں ان کا کرم دیکھ رہے ہیں

کرنی ہے انہیں ثبت جو تقدیر دو عالم
احمد کی طرف لوح و قلم دیکھ رہے ہیں

آدم ہیں در سید لولاک پہ خوش باش
جبریل کھڑے باغ ارم دیکھ رہے ہیں

عالم ہے سبھی کھوج میں جنت کی پہ عشاق
جنت کو ترا نقش قدم دیکھ رہے ہیں

مصباح کی مشکات و زجاجہ کی ہے تفسیر
اک شیشے میں دو نور بہم دیکھ رہے ہیں

دنیا کے مقر منکر سرکار یہ بد عقل
وجدان کو فقدان میں ضم دیکھ رہے ہیں

ق
اے امی لقب تیری فصاحت کے گلستان
حیرت سے عرب اور عجم دیکھ رہے ہیں

قرآن کے انداز میں حیدر کے بیاں میں 
سب تیری بلاغت کا بھرم دیکھ رہے ہیں

یہ انفس آفاق حقیقت کی نگہ سے
جعفر میں محمد کا حشم دیکھ رہے ہیں

دریائے حوادث کے تھپڑے ہیں فراواں
یہ عشق محمد ہے جو کم دیکھ رہے ہیں

اے گردش دوراں نہ ستا جان لے اتنا
ہم.لوگ ابھی سوئے حرم.دیکھ رہے ہیں

آنکھوں سے رواں اشک ہیں خاموش زباں ہے
یعنی کہ.مجھے شاہ امم دیکھ رہے ہیں

ہر جلوۂ بے پردہ کے پردے میں وہ موجود 
ہم اندھے ہیں غائب انہیں ہم دیکھ رہے ہیں

وہ کہتے ہیں اخلاص سے انجام دو اعمال
دنیا کی نہ پروا کرو ہم دیکھ رہے ہیں

دل کہتا ہے روضہ سے بقیعہ کو مسلسل
سرکار کئے چشم کو نم دیکھ رہے ہیں

صائب یہ عرق ریزی جعفر کا اثر ہے
کردار محمد جو علم دیکھ رہے ہیں

صائب جعفری
قم مقدس
۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۳

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 27 October 21 ، 11:39
ابو محمد

 

*موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی قم* میں ہفتہ وحدت کے عنوان سے منعقدہ محفل میں پیش.کئے گئے اشعار

برائے دین نبی کھل چکا تھا سرخ کفن
سرائے دہر میں ابلیسیت تھی خیمہ زن

تمام ہونے کو تھی لَو چراغ وحدت کی
خزاں کی نذر ہوا تھا شہادتوں کا چمن

نفاق و کفر سے سازش ہوئی تو کرنے لگی
ہوائے نفس بھی پیدا فضائے دیں میں گھٹن

دیارِ عشق میں حرص و ہوس کا موسم تھا
لگا ہوا تھا وفاوں کا آفتاب گہن

نوائے عشق پہ غالب تھے ساز ہائے طرب
لگائی شرک نے آواز حق پہ تھی قدغن

اٹھا پھر ایسے میں اک پیر مرد ابنِ بتول
نحیف زار بظاہر، تھا اصل میں آہن

لرزرہے تھے صنم خانہِ جہاں کے رکن
بتوں کے دیس میں اک بت شکن تھا جلوہ فگن

یہ جانتا تھا وہ توحید آشنا غازی
کہ کائنات ، درونِ بشر کو ہے درپن

وہ ماورائے طبیعت سے کھینچ لایا مدد
تھے شش جہاتِ جہاں جب بنے ہوئے دشمن

علی کے عشق میں مالک کی مثل ہر لحظہ
مثالِ آئینہ اعمال تھے برائے سخن

صد آفرین خمینی بفیض مصحفِ حق
شکست دے گئی   ہر شیطنت کو تیری لگن

یہ سِر بھی کردیا عالم پہ روز سا روشن
علی کے نام سے ہوتی ہے سہل کیسے کھٹن

ترے تفکر حق سے جہاں ہوا بیدار
اسی سے سینہ باطل کی بڑھ رہی ہے گھٹن

ہر ایک دشمن حق سے مقابلے کے لئے
جہاں پسند ہوا ہے تمہارا چال چلن

ترا عمل سے مسلمان ہوگئے بیدار
ترے طفیل ہی راہ جہاد ہے روشن

بنایا وحدت امت کو تو نے اپنا شعار
کہ اب لباس پہ اسلام کے پڑے نہ شکن

یہ انقلاب ہے تیرے ہنر کا ایک نشاں
جنجھوڑ ڈالا ہے جس نے ہرایک خفتہ تن

صائب جعفری
قم المقدس
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 22:04
ابو محمد

بزم استعارہ کی اس ہفتہ کی نشست مورخہ Oct 01,2021  میں میر تقی میر کے مصرع پر فی البدیہہ کہے گئے اشعار


لفظوں کا اعتبار ہے حسن ادا کے ہاتھ
انسان کا وقار ہے حرف حیا کے ہاتھ

من کنت کی صدا پہ بصد شوق و ابتہاج
بیعت کو بڑھ رہے ہیں سبھی انبیا کے ہاتھ

طوفاں میں نام سید سجاد کے طفیل
کشتی ہماری کھینے لگے خود دعا کے ہاتھ

پیاسی تڑپ رہی تھی فرات آب کے لئے
غازی نے تشنگی کو.بجھایا لگا کے ہاتھ

چھت پر علم لگاتے ہیں ہم.لوگ اس لئے
سایہ فگن سروں پہ رہیں با وفا کے ہاتھ

صائب نہ بخشا جائے یہ ممکن کہاں جناب
*"ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ"*


پہلی اکتوبر ۲۰۲۱
قم ایران

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 23:48
ابو محمد

قم مقدس میں عید زہرا کی.مناسبت سے منعقدہ محفل کے.لئے لکھا گیا طرحی کلام پیش خدمت ہے کچھ اضطراری وجوہات کی بنا پر محفل میں شریک نہیں ہو سکا تھا.

وادئ عشق علی میں گر ٹھکانہ چاہئے
تو جبیں ہر حال میں سجدے میں جانا چاہئے

شمع عشق حق کی لو کو تیز کرنے کے لئے
عاشقوں کو نفس کی خواہش جلانا چاہئے

.چھوڑ جاتے ہوں جو ہادی کو میان کارزار
ایسے لوگوں سے بھلا کیوں دل.لگانا چاہئے

سنت سفیانیت ہے گالیاں ہرزہ سرائی
کیا علی والوں کو بھی اس رہ پہ آنا چاہئے

ہم یقینا ہیں دعائے سیدہ، سو اب ہمیں
فاطمی تہذیب دنیا کو.سکھانا چاہئے

ماتم و گریہ کے ہمرہ مقتل و زنداں بھی ہیں
کربلا کی ساری رسموں کو.نبھانا چاہئے
ق
کربلا شام و یمن کہتے ہیں دعویدار عشق
آ ذرا میداں میں دعویٰ آزمانا چاہئے

عرصۂ اعمال میں یہ کلنا عباس ہی
ہے ثبوت عشق زینبیون مانا چاہئے

گر نہیں ہیں دشمن دیں آپ تو بتلائیے
کلنا عباس پر کیوں بلبلانا چاہئے

ق
ہو گیا ہے قلب مہدی آپ سے راضی تو.پھر
*آگئی ہے عید زہرا مسکرانا.چاہئے*

اور اگر ناراض ہے حجت خدا کی آپ سے
آپکو اشکوں کا اک دریا بہانا چاہئے

حق و باطل کی شناسائی کی خاطر صاحبو
اب نگہ سید علی سی عارفانہ چاہئے

ہے وفا کا یہ تقاضا طالبان علم دیں
جس کا کھاتے ہو اسی کا گن بھی گانا چاہئے

سن کہ یہ اشعار سب احباب ہیں اس فکر میں
کیا بھلا صائب کو آئندہ بلانا چاہئے

صائب جعفری
قم ایران
۱۶ اکتوبر ۲۰۲۱

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 18 October 21 ، 12:35
ابو محمد