کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

نوحہ/حکایت

میں نے بابا سے کہا کیجے حکایت بابا

عہدِ رفتہ کسی بچے کا کہئے قصہ

بولے بابا کہ ہے یہ ذکر بہت پہلے کا

ایک بچہ تھا جو خیمے میں تھا گریاں پیاسا

گو کہ نزدیک ہی خیمے سے تھا دریائے فرات

پر میسر نہ تھا اس بچے کو قطرہ ہیہات

باپ میدان میں لے جانے لگا لختِ جگر

کہتا تھا بوند کوئی پانی پلا دے آکر

ڈھایا کچھ ایسا ستم اس پہ زمانے نے مگر

تیر سہ شعبہ سے معصوم ہوا رن میں نحر

خون جاری ہوا گردن سے جو تشنہ لب کی

آسماں گیر ہوئی اس کے لہو کی سرخی

سن کے یہ قصہ کہا میں نے کہ اے بابا جاں

مردہ ہوتا ہے گناہوں سے ضمیرِ انساں

بابا بتلائے بچے کا گنہ کیا تھا بھلا

اس کو کس جرم میں بے دردی سے ایسے مارا

بہتے دریا کے کنارے تھا مگر پیاسا رہا

اس کے تن پر جو شلوکا تھا کفن اس کا ہوا

کیسی ہے درد بھری اس کی کہانی بابا

ہائے یہ کیسی سنانی ہے سنائی بابا

کتنی صدیاں ہوئیں لگتا ہے مگر تازہ سا

مرہمِ زخم ہے دنیا کے سبھی پیاسوں کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی قصہ ہے گئے وقتوں کا اے جانِ پدر

دشتِ پر ہول میں تاریکئِ شب کا تھا اثر

کھو گئی ایسی میں اس دشت میں اک شہزادی

تھی مصیبت زدہ، غم دیدہ و کم سن بچی

شب کی تاریکی میں آتا نہ تھا کچھ اس کو نظر

نالے کرتی ہوئی جاتی تھی وہ میداں کو مگر

کہتی تھی آو اے سجاد کے بابا آو

لوٹ آو مرے پیارے مرے بابا آو

رو کے کہتی تھی اے عباس اے عمو میرے

آپ کے غم نے مرے بال بھی بے رنگ کئے

چار سو غم کی فضا چھائی ہے تنہائی ہے

ہائے اب کوئی نہیں باقی جو امداد کرے

دوڑتی پھرتی تھی روتی ہوئی مقتل میں حزیں

تھی رقیہ یا سکینہ سرِ دشتِ خونیں

آہ واویلا یتیما پہ گھڑی تھی کیسی

شب کی تنہائی میں اس کا نہ تھا حامی کوئی

داستاں کیسی ہے پر درد کہ صدیاں گذریں

پھر بھی دل خون ہوئے جاتے ہیں سن لیں جو کہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داستاں کیسی عجب ہے یہ گئے وقتوں کی

دخترِ حضرتِ شبیر بنی جب قیدی

شہر در شہر تماشائی تھی ہر آنکھ بنی

روتی تھی قید میں بابا کے لئے اک بچی

گریہ کرتی تھی کہ مل جائیں یوں شاید بابا

قید کی سختی میں ہوجائے کا دیدار ان کا

لیکن اس قید میں دیکھا یہ ستم دکھیا نے

بے بدن سر ہے جو ملنے کو چلا آتا ہے

دیکھ کر باپ کا سر ہو گئی بے دم دختر

اٹھ گئی روتی وہ دنیا سے عزادارِ پدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بابا نہ کہو دے دی رقیہ نے جاں

راس آیا نہ اسے شام کا پرہول مکاں

گذرے وقتوں میں زمانے میں تھا جو کچھ گذرا

آپ نے کر دیا سب مجھ پہ عیاں اے بابا

آپ کو اجر خدا وند عطا اس کا کرے

غمِ شبیر سے ہم سب کے وہ دامن کو بھرے

۸ محرم ۲۰۱۶ قم المقدسہ



 یہ ایک عربی نوحے کا ترجمہ ہے


نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی