کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۴ مطلب در جولای ۲۰۲۲ ثبت شده است

امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ

مقالہ نگار: سید صائب جعفری

حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران

سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳

مقدمہ

 ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر  سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر  کے مقابلہ  میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔  آئمہ علیہم السلام چونکہ  کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔ 

آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں  اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام  محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت  بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔ 

اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے  تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔

یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا  کرکے واضح کیا۔

اس  مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔

مسئلہ کا بیان

خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو  امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو  کو سن  کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔ 

پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔

امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔

امام نقیؑ  کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے  اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔

امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔  اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم  غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔

اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔

۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟

۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟

۳۔ امام  علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟


 

امام نقی  علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی  حالات

شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق    کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت  ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام  نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور  آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 July 22 ، 04:21
ابو محمد
جہاں زوال پہ تھا آفتاب صحرا میں
وہیں عروج پہ تھے بوتراب صحرا میں
 
سراب ہوگئی کفر و نفاق کے قسمت
حقیقتوں کے کھلے جب گلاب صحرا میں
 
سوال احمد مرسل تھا جو شب اسری
خدا نے اس کا دیا ہے جواب صحرا میں
 
کھلے گا حشر کے میداں کس لئے تھا ہوا
علی ولی کا فقط انتخاب صحرا میں
 
غدیر و کرب و بلا کی بساط پر لکّھا
خدا نے عشق کا سارا نصاب صحرا میں
صائب جعفری
قم ایران
۱۸ ذیحجہ ۱۴۴۳
۱۸ جولائی ۲۰۳۳
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 July 22 ، 04:13
ابو محمد
 
اٹھا نقاب لوح ازل کا غدیر میں
مقصود کائنات بر آیا غدیر میں
 
دعوت سے فتح مکہ تلک جو ادھورا تھا
کارِ دین حق ہوا پورا غدیر میں
 
مل کر وفا کے بحر سے پرجوش ہو گیا
عرفان کردگار کا دریا غدیر میں
 
ایمان و اگہی پہ وفورِ بہار سے
اترا ہوا ہے شیخ کا چہرہ غدیر میں
 
دین خدا سے ہوگئے مایوس سب شریر
دوش نبی پہ آئے جو.مولا غدیر میں
 
کنکر نے بدشعار کا قصہ کیا تمام
نکلا منافقت کا جنازہ غدیر میں
 
بلغ کا حکم ملتے ہی حق کے رسول نے
من کنت کا سنایا قصیدہ غدیر میں
 
رب کی رضا کی پائی سند مومنین نے
کامل ہوا ہے آکے عقیدہ غدیر میں
 
بدعت اگر ہے پوچھئے پھر شیخ جی سے کیوں؟
مولا علی کا پڑھتے تھے کلمہ غدیر میں
 
اب لذت سجود مودت نہ.پوچھیے
جلوہ نما ہے عشق کا کعبہ غدیر میں
 
حکم خدا سے کردیا احمد نے آشکار
دریائے معرفت کا کنارا غدیر میں
 
محسن ولائے مہر امامت کے ذیل میں
اسلام کو.ملا ہے سہارا غدیر میں
 
غدیر ۲۰۰۶
کراچی پاکستان
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 July 22 ، 17:05
ابو محمد
 
جس کی الفت شرافت کا معیار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
نفس کا جس کے خالق خریدار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
 
عاشق کبریا عاشق مصطفیٰ جس کے دم سے ہو ایمان پرواں چڑھا
مشعل راہِ دیں جس کا کردار ہو مرتضیٰ کے.سوا دوسرا کون ہے
 
جس کے دربان بن کر ہوں شاداں ملک کائنات خدا جسکی ہو سلطنت
بیٹھ کر بورئیے پر بھی سردار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
 
مشکلوں میں جو مشکل کشائی کرے ساری دنیا کی حاجت روائی کرے
سارے نبیوں کا بھی جو مددگار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
 
نام سے جس کے خائف ہوں مرحب صفت ہو نبی نبی کی سپر جو دم جدّ و کد
اور خدا نے جسے بھیجی تلوار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
 
آپ ہی جانشین نبی بن گئے سینکڑوں ہی مگر دیکھئے یہ ذرا
جس کو پہنائی احمد نے دستار ہو مرتضی کے سوا دوسرا کون ہے
 
جس کی چوکھٹ پہ انجم سلامی کریں جو محمد کی دختر کا ہمسر بنے
جس کو ہر اک بڑائی سزاوار ہو مرتضیٰ کے سوا دوسرا کون ہے
 
غدیر ۲۰۰۴
کراچی پاکستان
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 July 22 ، 14:30
ابو محمد