کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

- منقبت

نکہت ہے جذبِ عشق کی قرطاس کی مہک

پیدا ہے لفظ لفظ سے احساس کی مہک

بحرِ ثنا میں رستہ بنانے لگا قلم

فکر و شعور پا گئے الیاس کی مہک

زینب کے دل کا آسرا، ڈھارس حسین کی

یعنی دعائے زہرا کے عکاس کی مہک

سیراب دستِ غازی نے جب سے کیا اسے

ر چ بس گئی فرات میں عباس کی مہک

صدیاں گذر گئی ہیں پہ تازہ ہے آج بھی

سینے میں علقمہ کے تری پیاس کی مہک

زربفت گل بھی  توڑ نہ پائے جسے کبھی

پندار ہے وفا کا ترے پاس کی مہک

تیرے علم سے آتی ہوئی خلد کی ہوا

کرتی ہے دور دل سے مرے یاس کی مہک

مثلِ فرات قبر کا تیری کروں طواف

عرضِ نیازِ شوق ہے اس آس کی مہک

بحرِ وفا سے پایا ہے گنجینہِ سخن

کیونکر قریب آئے گی افلاس کی مہک

لے جاوں گا بجائے عمل بہر احتساب

صائب نجف کے والی کے عکاس کی مہک

۱۵ جولائی ۲۰۱۲ کراچی


موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/05/29
ابو محمد

manqabat

منقبت

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی