کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۳۹ مطلب با موضوع «غزلیات» ثبت شده است

رنگ، رنگ کمال لیتے ہیں
عشق یعنی ملال لیتے ہیں
 
خود کو اپنی خودی سے کرکے جدا
اس کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں
 
عشق میں ڈوب کر ابھرنے کو
کربلا کی مثال لیتے ہیں
 
رات کا نام ہم سے اہل جنوں
کب برائے وصال لیتے ہیں
 
دیکھ کر زاہدوں کے سجدے رند
*سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں**
 
آو بہر نماز عشق ذرا
دل سے آب زلال لیتے ہیں
 
منعکس ہو جمال یار چلو
ظرف اپنا کھنگال لیتے ہیں
نیک و بد کوئی سوال نہیں
ہم ترے رخ سے فال لیتے ہیں
 
بیچ کر خود کو عاشقان جنوں
تیرے ہونٹوں کا خال لیتے ہیں
 
ابر باراں ہے سبزہ و گل ہے
آو حسرت نکال لیتے ہیں
 
ہم مروت کے مارے سانپوں کو
آستینوں میں پال لیتے ہیں
 
جسم کی.لذتوں کی خاطر ہم
روح و جاں پر وبال لیتے ہیں
 
صائب جعفری
زیبا کنارـ گیلان ـ ایران
۱۲ نومبر ۲۰۲۲
۲۱ آبان ۱۴۰۱
۱۷ ربیع الثانی ۱۴۴۴
 
*یہ مصرع میرتقی میر کا ہے اس پر فی البدیہہ طرحی محفل مشاعرہ میں اس تضمین کے ہمراہ مندرجہ بالا کہی گئی
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:44
ابو محمد
*جہاں فرشتوں کی خاطر بنی ہوئی حد ہے*
*وہاں بھی خاک ہماری پہنچ گئی حد ہے*
 
*ہم ایسے سادہ مزاجوں کے ساتھ دنیا کو*
*منافقت کی ضرورت پڑی ـ کوئی حد ہے*
 
*مجھے پھراتے رہے تم دیار ظلمت میں*
*تمہیں خبر تھی کہاں پر ہے روشنی حد ہے*
 
*ہوا تو خیر مخالف رہی ہمیشہ مگر*
*خود اپنے ہم بھی نہ حامی رہے یہی حد ہے*
 
*جنہیں ازل سے تمنا ہے موت کی میری*
*انہی کے ساتھ گذرتی ہے زندگی حد ہے*
 
*غموں پہ رقص کریں اور خوشی میں روئیں نہ کیوں؟*
*کہ غم خوشی میں نہاں غم میں ہے خوشی حد ہے*
 
*وہ حریت کا مبلغ ہے آج کل جس کا*
*ہے اختیار فقط قید بے بسی، حد ہے*
 
*جسے زمانہ سمجھتا ہے بے ضرر مجنوں*
*اسے ہے عشق کے رازوں کی آگہی حد ہے*
 
*ہر ایک رنگ میں اسکا ہی رنگ ہے لیکن*
*ہزار جلووں کا حاصل نہیں دوئی حد ہے*
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ـ ایران
12:55 AM 
Nov 16,2022
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:42
ابو محمد
عشق کا رنگ رنگ لائے گا
خون خنجر کو مات دے دے گا
 
دور بارود کے وفور کا ہے
اب کھلونوں سے کون بہلے گا
 
ایک پتھر ہے ایک شیشہ ہے
دیکھئے کون کس کو توڑے گا
 
روشنی سے لڑا ہے پروانہ
کیا اندھیرا اسے نگل لے گا
 
وہ یہ سمجھا تھا میں رکوں گا نہیں
میں یہ سمجھا تھا وہ پکارے گا
ق
واعظا چٹکلے نہ چھوڑا کر
کون وعدوں پہ مے کو چھوڑے گا
بس میں ہے تو بیاں حقیقت کر
ان سرابوں سے کون بہکے گا
 
کوئی پتھر ہو کوئی ہیرا ہو
جوہری تو سبھی کو پرکھے گا
 
بال پر پھوٹنے لگیں گے جب
شوق پرواز دل میں ابھرے گا
 
یہ زمیں آسماں نہیں ہونگے
جب وہ رخ سے نقاب الٹے گا
 
وصل کی شب میں خواب سونے کا
شاید احمق ہی کوئی دیکھے گا
 
وہ کرے بات اور میں نہ.سنوں
صائب ایسا تو وہ نہ چاہے گا
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ایران
Dec 02,2022 
2:07 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:37
ابو محمد

کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی.کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں.بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہوگا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبال جان ہی بن جائے گا کمال سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی 
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں.مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
۲۹ ستمبر ۲۰۲۲
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 October 22 ، 01:04
ابو محمد
خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
 
 
کون؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
 
راستہ کون روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
 
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
 
اب نہ گل ہے نہ بلبلیں نہ درخت
بات دل کی کسے سنانے جائیں
 
ہم قدامت پسند دیوانے
جائیں کیسے جہاں زمانے جائیں
 
ہے عبث کام پر یہ کرتے ہیں
حسن کو عاشقی سکھانے جائیں
 
کاش کوئی نہ ہو سر محشر
حاصل عشق جب اٹھانے جائیں
 
گر  طبیبوں کے بس کا روگ نہیں
زخم جلاد کو دکھانے جائیں؟
 
اس لئے کنج میں پڑا ہوں چپ
گیت بہروں کو کیا سنانے جائیں
 
ہوگیا ہے یہ حکم بھی صادر
آگئے ہیں نئے پرانے جائیں
 
تیرے دل سے نکالے جانے کے بعد
ہم.کہاں قسمت آزمانے جائیں
 
کاش یہ کہہ سکیں کبھی ہم.بھی
ہم.کو.خواہش نہیں کہ جانے جائیں
 
جملے گھڑ لینا کچھ کمال نہیں
شعر ایسے تو ہوں کہ مانے جائیں
 
سوچتے ہیں یہ شوخ پروانے
کس طرح شمع کو.بجھانے جائیں
 
ہم ہیں روٹھے ہوئے مگر صائب
سوچتے ہیں انہیں منانے جائیں
 
 
صائب جعفری
۴ فروری ۲۰۲۲
خمین ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 February 22 ، 01:00
ابو محمد
 

انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 

بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے

اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے

یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے

یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے

سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے

جو  پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے

یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے

وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے

دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"

سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے

نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے

بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے

طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے

صائب جعفری

صائب جعفری
۲ اگست ۲۰۲۱
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:29
ابو محمد
سخن نا آشنا ہے
ہمیں جو بھی ملا ہے
 
کوئی روٹی کی خاطر
شرافت بیچتا ہے
 
یہاں قائم ازل سے
الم کا سلسلہ.ہے
 
سحر فائدہ کیا
کہ دل تو بجھ چکا ہے
 
خموشی کا تسلسل
بہت صبر آزما ہے
 
فراق و ہجر کی کہہ
بتا مت وصل کیا ہے
 
تصور میں جو آئے
بھلا وہ بھی خدا ہے؟
 
بتایا کربلا نے
لہو بھی بولتا ہے
 
تجھے مرنا پڑے گا
کہ تو سچ بولتا ہے
 
یہ صائب کا فسانہ
فسانہ عشق کا ہے
 
Dec 24,2021 
12:33 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:38
ابو محمد
تو ہے جاں سے قریں تو پھر کیونکر
کاسہ دل لئے پھروں در در
 
دم بدم موت کھا رہی ہے مجھے
دم بدم ہو رہا ھوً زندہ تر
 
لا مکاں سے عجب ہے یہ نسبت
میں مکاں مند ہوں مگر بے گھر
 
خود ہی منزل ہوں خود مسافر ہوں
مجھ کو در پیش ہے اک ایسا سفر
 
ہیں عذاب و ثواب سب کے سب
حاصل اختیار نوع بشر
 
آپ کو پاکے ملتفت مرا دل
ہو کے عالم کا ہوگیا خو گر
 
آسماں تک رہا ہے حسرت سے
لگ گئے جب سے مجھ کو عشق کے پر
 
یہ جو مجھ میں انا کا ہے عنصر
ظاہرا یہ بھی ہے ترا ہی اثر
 
فتوئے کفر کو کہے تمغہ
ایک عاشق سوا ہے کسکا جگر
 
شہر دل کے لئے شب یلدا
ہے اماوس کی رات کا منظر
 
مجھ کو معلوم ہی نہ تھا صائب
تو ازل سے ہے مجھ میں جلوہ گر
 
،Dec 24,2021 
12:37 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:37
ابو محمد

جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار

مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے


عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون

خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
 میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون

خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون

آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون

تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون

بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون

حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون

 راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون

ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون

جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون

۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 July 21 ، 01:01
ابو محمد

۱. رقیب کرکے مدارات خوش نہیں ہونگے
برے ہوں اچھے ہوں حالات خوش نہیں ہونگے

۲. مرے بغیر تو خوش ہیں تمام لوگ مگر
مجھے خبر ہے مرے ساتھ خوش نہیں ہونگے

۳. بتا دے کون سا اعزاز مرے پاس نہیں
مگر یہ لوگ مرے ہاتھ خوش نہیں ہونگے

۴. میں ہاتھ لگ گیا ان کے تو شوق کی خاطر
نکال لیں گے وہ جذبات خوش نہیں ہونگے

۵.بہت سے جھوم اٹھیں گے ہماری غزلوں پر
مگر یہ ذات کے بد ذات خوش نہیں ہونگے

۶.یہ ہند فطرت و قصاب طینت اے وائے
کلیجہ کھائیں گے دن رات، خوش نہیں ہونگے

۷. اناڑیوں کا بنا ہوں حریف جانتا ہوں
یہ مات کھائیں یا دیں مات خوش نہیں ہونگے

۸.رہے یہ دل کی جو دل میں بہت ہی اچھا ہے
کہ آپ کرکے ملاقات خوش نہیں ہونگے

۹.بہار رت سے ہیں نالاں مرے چمن کے گلاب
بلا کی برسی جو برسات خوش نہیں ہونگے

۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 July 21 ، 00:50
ابو محمد

بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل


ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس

میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس

تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس

پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس

آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس

لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس

کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس

سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس

پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس

اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس

بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس

اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس

صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 July 21 ، 00:35
ابو محمد

کیا آخری برس یہ دنیا کا اے خدا ہے
یہ سال کیسے کیسے شہکار کھا گیا ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 August 20 ، 23:44
ابو محمد

قصیدہ
در ہجو بعضی از مار ہای آستین
بے مایہ وتوقیر ہیں یہ خر مرے آگے
در اصل ہیں خنزیر کا گوبر  مرے آگے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 29 June 20 ، 13:49
ابو محمد

بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 April 20 ، 01:32
ابو محمد

محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 23 January 20 ، 22:55
ابو محمد

غزل

بادہ نوشی میں ہیں یکتا یہی سمجھانے کو

ایک پیمانے میں بھر لیتے ہیں مے خانے کو

رات ضائع ہی گئی لفظ بھی بے کار گئے

جب کوئی سمجھا نہیں آپ کے افسانے کو

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 June 19 ، 01:44
ابو محمد

 غزل

گر خدا وند کو خدا کرلیں

زندگی موت سے جدا کرلیں

زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی

چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں

غیر کے ساتھ بات دور کی ہے

کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 June 19 ، 01:41
ابو محمد


دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں

ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں

حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز

بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں

یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے

آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 June 19 ، 01:38
ابو محمد

چل دئیے کیوں رات آدھی چھوڑ کر

صیقل جذبات آدھی چھوڑ کر

موت کی آغوش میں ہم سوگئے

درد کی بارات آدھی چھوڑکر 

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 June 19 ، 14:33
ابو محمد

اگر  دل میں بسا تیرے خدا ہے

تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے

مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے

کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے

خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے

تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 June 19 ، 14:29
ابو محمد

غزل

بہت دیر خود کو رلانا پڑا

یونہی جب کبھی مسکرانا پڑا

تری آرزووں کی تکمیل کو

بس آپ اپنا ہم کو مٹانا پڑا

۲ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 03 June 19 ، 00:15
ابو محمد

غزل

گوشوارے چھٹ کے جب بالی ہوئے

غیر کیا اپنے بھی کب والی ہوئے

جام، جھولی، کاسہ، دامن، جیب، ہاتھ

خالی دل بھر آنے کو خالی ہوئے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 02 June 19 ، 19:37
ابو محمد


رہ گیا عشق جو ناکام تمنا بن کر

رہ گئی نوعِ بشر ایک تماشہ بن کر

شاہ بن کر وہ ملا ہو یا گدا سا بن کر

مجھ سے ہر بار ملا ہے وہ پرایا بن کر

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 May 19 ، 02:20
ابو محمد


نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے

مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے

میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر

کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 May 19 ، 02:16
ابو محمد


لفظ  ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،

بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا

پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو

پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 April 19 ، 19:46
ابو محمد


فروغِ حسن سے دل کی کسک کا دور ہوجانا

کہاں ممکن شبِ دیجور کا کافور ہوجانا

کب آگہ تھا جمال ِ حسن اپنی قدر و قیمت سے

سکھایا عشق ہی نے حسن کو مغرور ہوجانا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 April 19 ، 19:43
ابو محمد


آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر

بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر

ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں

دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 April 19 ، 19:39
ابو محمد

نذر جون ایلیاء

زمانہ پار، سا ہو جائے گا کیا

فسانہ برملا ہوجائے گا کیا

بنے ہیں آشنا دشمن ہمارے

تو دشمن آشنا ہو جائے گا کیا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 April 19 ، 19:28
ابو محمد


کیا ہے ناب اک عذاب

حسنِ یار انتخاب

دل پذیر ہے رباب

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 April 19 ، 17:36
ابو محمد

ابن انشاء کے مصرع پر تضمین

تم کو کیا ہے چندا چاند

میں جانوں اور میرا چاند

تیری پروا کس کو یار

"سب کا اپنا اپنا چاند"

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 03 March 19 ، 00:19
ابو محمد

بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے

کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے


بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم

خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 28 February 19 ، 02:00
ابو محمد

مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی 

 شعری نشست میں پڑھی گئی غزل

ـــــــــــــــــــ

صائب جعفری

ــــــــــــــــــــ

کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے

مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 18 February 19 ، 19:16
ابو محمد

1. ہے یہ نہاں آپ کی تحریر میں

ظلمتیں پنہان ہیں تنویر میں


2.تیشہِ فرہاد سے پوچھے کوئی

کیا ہے دھرا زلف گرہ گیر میں


3.اٹھ کے وہ لیتا ترے دامن کو کیا؟

دم ہی کہاں تھا ترے نخچیر میں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 February 19 ، 20:50
ابو محمد

ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا

نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا

...

مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے

پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا

.....

پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر

کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 February 19 ، 12:27
ابو محمد


عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا

کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا

ــــــــــــــــــــــــــــ

جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش

اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 19 ، 17:01
ابو محمد

کچھ سخاوت اگر افلاک کریں

میرا حصہ خس و خاشاک کریں

 

یہ ہو خوں نابہ فشانی کا اثر

نالے پتھر کو بھی نم ناک کریں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 19 ، 16:51
ابو محمد

سنا تھا ہوتی ہیں از بسکہ بے ضرر آنکھیں 

مگر بنا گئیں اس جسم کو شرر آنکھیں


 تمام قصہ ہجر و وصال کی تلخیص

مہ تمام، خنک رات ،رہگذر آنکھیں 

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 19 ، 16:46
ابو محمد

صائب جعفری:

۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے...



گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے

کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 30 January 19 ، 17:25
ابو محمد


کبھی جو قصہِ حسرت سنانا پڑتا ہے

زمیں کو بامِ فلک سے ملانا پڑتا ہے


ہوس کو جلوہِ جاناں کی آرزو کے لئے

دل و نظر کو بہت آزمانا پڑتا ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 19 ، 17:00
ابو محمد