کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 

 

 

https://m.youtube.com/channel/UCbSiNuE-cWAzb4QM2npzMhg

صائب جعفری کی شاعری اور نثری افکار

 

https://m.youtube.com/channel/UCoOi1aJEfDW8z2lMRuxygRQ

ادبیات اور دینیات کے دروس کا چینل

 

دونوں چینلز کو.سبسکرائب لائیک اور شئیر کریں

عیوب قافیہ

جمع و تدوین :صائب جعفری

۱۔ایطا یا شائیگاں

جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک  ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں  ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع  میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل  اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں  کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج  ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو  بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں  یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں   الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ روی کے حرف کا ایک صورت اور ایک ایک معنی کا ہونا جائز نہیں ہے اور اسی کا نام ایطا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ، ایک ایطائے جلی دوسرے ایطائے خفی۔

ایطائے جلی وہ ہے جس میں تکرار معنی واضح اور ظاہر ہو جیسے عقل مند اور حاجتمند میں کہ لفظ مند جس کا دال روی ہے اور دونون جگہ ایک ہی معنی دیتا ہے اور علامت فاعل افادہ معنی فاعل دیتی ہے اس کو ایطائے جلی کہیں گے۔ اب ہم مند کو الگ کر کے دیکھیں گے اگر بقیہ دونوں الفاظ ہم قافیہ ہوں  تو آخری حرف کو روی قرار دیں گے اور مند کو وصل و خروج و مزید  میں شامل کر دیں گے، لیکن عقل اور حاجت دونوں ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اوّل تو دونوں کے آخری حرف جدا جدا ہیں دوسرے ایک قافیہ میں حرف قید ہے اور دوسرے کے قافیہ میں دخیل و تاسیس ہے۔بس اگر کوئی شخص ان دونوں کا باہم قافیہ کرے تو ناجائز ہے۔

جب حروف علامت فاعلی یا حروف جمع یا حروف منادیٰ یا اور حروف جو لفظ کے آخر میں افادہِ معنی کے واسطے لگائے گئے ہیں ان کو نکال ڈالنے کے بعد اگر حرف روی دونوں میں ایک ہی باقی رہے تو ایطا نہیں ہے اور اگر حرف روی مطابق نہ رہے تو ایطا ہے۔ مار اور ڈال ہم قافیہ نہیں ہیں اگر ان کو ماریں اور ڈالیں بنا کر ہم قافیہ کریں تو غلط ہوگا اور اسی کا نام ایطائے جلی ہے۔ 

اسی طرح ایک ہی لفط کو جو ایک ہی معنی میں ہو اس کا مطلع کے دونوں مصرعوں میں لانا ایطا ہے جیسے خدا خدا کو دونوں مصرعوں میں قافیہ بنانا بھی ایطا ہے۔ گلابیاں اور مستیاں کو قافیہ کرنا نا جائز ہے اور ایطائے جلی ہے ، غریباں اور درویشاں ، تاجور اور نامور میں ایطائے جلی ہے ہندی الفاط میں بھی ایطائے جلی اسی طرح واقع ہوتا ہے جیسے چلنا جانا کہ جب علامت مصدر کو نکال دیں تو الفاظ باہم قافیہ نہ رہیں اس لئے یہاں ایطائے جلی ہے۔ چلنا اور اٹھنا میں بھی ایطائے جلی ہے بعض فصحائے اردو کہتے ہیں کہ متعدی افعال ہندی میں ایطائے جلی نہیں ہے اس لئے اس کو ایطائے خفی کہیں گے۔ جیسے اٹھنا کو متعدی بنائیں گے تو اٹھانا بنے گا اور چلنا سے چلانا بنے گا یہاں امر کا حرف جو ساکن تھا اسکو متحرک کرکے الف سے ملا دیا ہے اس صورت میں تکرارِ معنی پوشیدہ ہوگئی ہے اور الف تعدیہ لفظ کا جز بن کر لفظ میں شامل ہوگیا ہے اگرچہ حقیقت میں الگ ہے اس لئے ایسے قافیہ کو ایطائے خفی کہیں گےیعنی چلانا اٹھانا بہانا سنانا دکھانا بنانا ملانا ایطائے خفی ہیں  اور ان کا باہم قافیہ کرنا جائز ہے۔

ایسے الفاظ جن کے تعدیہ میں الف نہیں آتا یا افعال لازم یا افعال متعدی المتعدی جو اپنی علامتوں سے مل کر حرکت میں فرق پیدا نہیں کرتے اور ان کا امر موافق روی نہیں ہوتا ایطائے جلی ہیں جیسے بدلنا کہنا متعدی اور سننا جانا چلنا بیٹھنا لازم  ان کو باہم قافیہ کرنا نا جائز ہے کیونکہ ان میں تکرار ظاہر ہے اور یہ ایطائے جلی ہیں۔

اسی بنا پر اہل عجم بھی کہتے ہیں کہ دانا اور بینا میں ایطائے خفی ہے اور اس کی تکرار ظاہر نہیں ہے اور حرکت نون نے صورت حال کو بدل دیا ہے سو اس کو ایطائے خفی کہیں گے۔ اسی طرح گلاب اور آب  کا قافیہ ہے کہ گل کے ملنے سے آب کی صورتِ حال بدل گئی اور حرفِ مد نکل گیا یوں تکرار معنی پوشیدہ ہوگئی اور ایطائے خفی ہوگیا اگر اس کا املا گل آب قائم رہتاتو  تکرار کے ظاہر ہونے کی وجہ سے ایطائے جلی ہوتا۔ آفتاب و ماہتا ب ایطائے جلی ہے اس لئے کہ اس میں تاب کی تکرار ظاہر ہے اور تکرار لفظی و معنوی دونوں ظاہر ہیں۔

ایک صورت ایطائے خفی کی اہل قافیہ نے اور بھی بیان کی ہے کہ اگر قافیہ کا آخری حرف نکالنے کے بعد حرف سالم بامعنی اور خلاف قافیہ باقی رہیں تو یہ ایطائے جلی ہے۔ جیسے چلنا اور کھانا میں اگر حرفِ روی نکالنے کے بعد لفط سالم باقی نہ رہے تو ایطائے خفی ہے جیسے چلانا اور دکھانا میں حرف روی الف تعدیہ ہے اس کو نکالنے کے بعد چل اور دکھ باقی رہا چونکہ دکھ امر نہیں ہے اور دکھا کا غیر سالم ٹکڑا ہے  اس لئے اس الف کو جزو فعل سمجھا جائے گا اور ایسا قافیہ کرنا جائز ہوگا یعنی اس کو ایطائے خفی کہیں گے اس لئے کہ تکرار حرف روی ظاہر نہیں ہوئی۔

تاباں اور درخشاں اگر ایک مطلع میں دونوں قافیے ہوں تو ایطائے جلی ہے  کیونکہ الف و نون فاعلی ہے اور افادہِ فاعل کے واسطے آیا ہے  اور چونکہ نون حرف روی ہے اور وہ حرف فاعلی واقعہ ہوا ہے اور افادہ معنی فاعلی کے لئے ہے لہذا دونوں جگہ ایک ہی معنی میں صرف ہوا ہے اور حرف روی کا ایک ہی معنی کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں ہے لہذا اس کا نام ایطائے جلی ہے۔ اسی طرح ، فسوں گر ستمگر، دردمند حاجت مند، کمالات مہمات، شنیدن و گفتن، ایطائے جلی ہیں۔ 

اگر ایک جگہ مسلماں اور درخشاں قافیہ ہوں تو تکرار معانئ حرف روی نہیں ہے اس لئے ایطا نہیں ہے کھا اور جا دونوں امر ہیں اس میں حرف زائد نہیں ہے  اس لئے ایطا نہیں ہے۔ لانا دینا میں ایطائے جلی ہے اس لئے کہ نون الف علامت مصدر ہے  اور دونوں  حروف میں ایک ہی معنی میں ہے ان کو نکال ڈالو لا اور دے باقی رہے گا اور یہ الفاظ ہم قافیہ نہیں ہیں اس لئے لانا دینا کو اگر قافیہ کیا جائے تو ایطائے جلی ہوگا،  اگر آ اور سنا کو قافیہ کرو گے تو ایطا نہیں ہوگا اس لئے کہ آ امر لازم ہے اور اس میں الف زائد نہیں ہے  اور سنا امر متعدی ہے  اس میں الف تعدیہ ہے پس حرف روی ہم معنی نہیں ہے اس لئے ایطائے نہیں ہے بتا اور سنا دونوں امر متعدی ہیں ان میں سے اگر بتا کا الف نکال دیا جائے تو بت ایک بے معنی لفظ رہ جائے گا اس سبب سے بتا میں تکرار معنی پوشیدہ ہے ہر چند اس کا الف جدا ہے اور حرف تعدیہ ہے مگر یہ الف اس لفظ سے جدا نہیں ہوسکتا ہے لہذا تکرار معنی کی وجہ سے اس کو اگر سنا کے ساتھ قافیہ کیا جائے گا تو ایطائے جلی ہوگا۔

قاعدہ: اگر ایک جگہ قافیہ میں الف اصلی ہو اور ایک جگہ الف وصلی ہو اور دونوں کو روی بنائیں تو ایطا نہیں ہے کیونکہ روی کے معنی بدل گئے جیسے پایا اور بنایا اس میں پا  امر لازم ہے اس کا الف  جدا نہیں ہوسکتاجبکہ بنا امر متعدی ہے اور اس کا الف جدا ہوسکتا ہے اس کو الف تعدیہ کہیں گے اس لئے دونوں کے معنی جدا جدا ہوئے اور یوں دونوں کا قافیہ کرنا جائز ہوا جیسے۔۔

مائل دید کسی گل کا جو پایا مجھ کو

شکل نرگس ہمہ تن چشم بنایا مجھ کو

قاعدہ: اگر حرف روی ایک جگہامر متعدی اور دوسرے مصرعہ میں الف ماضی کا ہو تو بھی ایطا نہ ہوگا کیونکہ امر کا الف اصلی ہوتا ہے  اور غیر مستقل معنی رکھتا ہے جبکہ ماضی کا الف وصلی ہوتا ہے مستقل معنی رکھنا ہے جیسے۔

میں کہا ہاتھ مت لگا مجھ کو

اس نے اک داغِ دل دیا مجھ کو

اس میں لگا امر ہے اور دیا ماضی متعدی ہے اس  لئے  تکرار معنی نہیں ہے  لیکن اگر دونوں جگہ ماضی کے معنی پر ہوتا تو ایطائے جلی کہا جاتا۔ جیسے۔۔

جب وہ ماہِ تمام ہاتھ لگا

تاب و طاقت نے تب جواب دیا

 

 

ایطائے جلی  و خفی کی مثالیں الفاظ میں

ایطائے جلی  عربی و فارسی

تاباں ، درخشاں۔ واعظا، ناصحا۔ رفتن، دیدن۔ زرِّیں، سمیں۔ ستمگر، فسوں گر۔ عقلمند، حاجتمند۔ بہتر، نکوتر۔ دوراں، گرداں۔ یاراں، دوستاں۔ غمگیں، شرمگیں۔ گلہا، باغہا۔بکن، مکن۔ رخی، مردی [رخے، مردے]۔ مومنات، مسلمات

ایطائے خفی فارسی

دانا ، بینا، شنوا، گویا۔ گلاب، آب۔ رنجور، مزدور۔ شاہا، خدا وندا۔ بینش ،دانش۔

ایطائے جلی ہندی

چلنا، بدلنا۔ روٹیاں، لٹیاں۔ بچپن، لڑکپن۔ مستیاں، گلابیاں۔ شہیدوں، عندلیبوں۔ کاتنا ، مارنا۔ ہنسنا، رونا۔ آنکھیں، گھاتیں۔ بنو سنو۔ چالیا، فیلیا۔گویا، نقلیا۔ بیٹھو، اٹھو۔ ماریں ڈالیں۔ کاٹا، پیٹا۔ چلا ، سنا۔

ایطائے خفی ہندی

بتانا ، اٹھانا۔ دکھا، سنا۔ بتاو، بناو۔ بتا، بسا۔ بچھاو ، بٹھاو۔ دکھادو، لگادو۔ دکھلا، بھڑکا۔ ڈھانا، لگانا۔

قاعدہ: بعض شعراء کہتے ہیں کہ جن مصادر ہندی میں الف تعدیہ آتا ہے جیسے دکھانا، بتانا، لگانا، سنانا بٹھانا، بھڑکانا، ڈھانا، بہانا، جلانا، بچھاناچھڑانا، اڑانا، بلانا، چلانا وغیرہ جن سے علامت مصدر نکالنے کے بعد صیغہِ امر میں الف قائم رہتا ہے جیسے چھڑانا کا امر چھڑا ہے اور یہ کسی بھی تصریف سے خارج نہیں ہوتا جیسے چھڑانا کی ماضی چھڑایا، چھڑایا تھا، چھڑایا ہے اور مضارع چھڑائے۔ ان میں الف وصلی نہیں ہے بلکہ اصلی ہے اور مصدر میں حرف اصلی کی پہچان یہی ہے کہ وہ امر میں قائم رہتا ہے اور کسی تصریف میں نہیں بدلتا اور الگ معنی بھی نہیں دیتا  اور اسی طرح وہ لازم مصدر جو امر میں الف نہ رکھتے ہوں جیسے آنا سمانا وغیرہ کہ ان کا صیغہ امر آ اور سما ہوتا ہے اور کسی تصریف میں نہیں بدلتا ان کو ایک مطلع میں لانا جائز ہے کیونکہ ان میں ایطا نہیں ہے۔ لیکن ایسے متعدی مصدر جن کے امر میں الف نہیں ہوتا اور جن کی ماضی بقاعدہِ تصریف الف لگا کر بنائی جاتی ہے ، ان میں الف کو روی کرنا جائز نہیں ہےاور ایطا میں داخل ہے جیسے چلا  اور ہنسا بمعنی ماضی۔ لیکن اگر یہی لفظ متعدی بمعنی امر ہوں تو قافیہ جائز ہے یعنی وہ لازم مصدر جو الف زیادہ کرکے متعدی بنائے گئے ہوں اور وہ متعدی مصدر جو الف زیادہ کرکے متعدی المتعدی بنائے گئے ہوں ان کا الف تعدیہ کسی حالت میں نہ بدلتا ہوں اور الف جزو فعل ہو گیا ہو ان میں ایطا نہیں ہے لیکن اس قاعدے کے پابند تمام شعرائے اردو نہیں ہیں اور ایسے افعال کو وہ ایطا کہتے ہیں۔

اگر لفظ ایک ہی ہو مگر معنی جدا ہوں تو اس کی مطلع میں تکرار جائز ہے کیونکہ ایطا میں تکرار معنی سے بحث ہوتی ہے نہ کہ تکرار لفظی سے۔

مرجاوں تو نہ آئے وہ بندی کی گور پر

کیا ہوں گدھی جو جان دوں بہرام گور پر

یہاں دونوں مصرعوں میں گور کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن ایک مصرع میں گور بمعنی قبر ہے اور دوسرے میں بہرام کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اسم شخص ہے لہذا یہاں ایطا نہیں ہے۔

خوش آئی رام کو جب خاکساری

ملی اپنے بدن پر خاک ساری

یہ کیوں ہے جان بے چین آج  کس پر اپنا جی آیا

پکارا بے بلائے اضطراب دل کہ جی آیا

آس باقی ابھی اس دل کی لگی رہنے دے

قطع امید نہ کر اس سے لگی رہنے دے

اسی طرح اگر حرف روی مختلف معنی کے ہیں تو بھی مطلع میں لانا جائز ہے۔ جیسے درویشاں اور خنداں کو ایک ساتھ قافیہ کرنا جائز ہے کیونکہ درویشاں میں الف نون جمع کا ہے اور خنداں میں علامت فاعلی سو ان کا قافیہ درست ہے اور ایطا نہیں ہے۔

قاعدہ: بعض شعراء کا کہنا ہے کہ ایسے افعال متعدی  جن کا الف نکال دینے کے بعد ان کے لازم کا استعمال خلاف قیاس سمجھا جاتا ہے جیسے بجھانا جلانا وغیرہ تو ان میں ایطا نہیں ہے کیونکہ یہ حرف مع تعدیہ مستعمل ہیں اس لئے الف تعدیہ اصلی ہے اور لازم غیر مستعمل ہے۔ مگر یہ قاعدہ قیاس سے باہر ہے کیونکہ بجھنا اور جلنا باہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس ان کا لازم بھی مستعمل ہے۔

ایطا اور غیر ایطا کی تشریح امثال میں

ہمیشہ دستِ دل سے پائے کوباں

پریشاں مثل زلفِ ماہرویاں

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کوب اور ماہرو ہم قافیہ نہیں ہیں اور الف نون حرف زوائد ہیں اس لئے اس شعر میں ایطا ہے ، یہ خیال غلط ہے اس واسطے کہ ایطا کی تعریف یہ ہے

" قافیہ کا حرف آخر ایک معنی اور ایک صورت کا ہو تو اس حالت میں ایطا ہوتا ہے۔"

کوباں میں الف نوں فاعلی ہے اور ماہرویاں میں الف نون جمع کا ہے اس واسطے یہاں ایطا نہیں اور ایسا کہنا جائز ہے۔

بحر درویشی طریقہ ہے رسول اللہ کا

باندھئے تسمہ کمر میں مدِ بسم اللہ کا

اس پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ دونوں جگہ اللہ کا لفظ ایک ہی معنی پر ہے اس لئے ایطا ہے۔ یہ بھی غلط ہے اس واسطے کہ رسول اللہ بترکیبِ اضافی علم ہے اسم معرفہ ہے جس سے مراد پیامبر گرامی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس ہے اس لئے رسول اللہ کی ترکیب میں اللہ خدا کے معنی پر نہیں ہے سو ایطا نہیں ہو سکتا۔

اسی کوئی اگر شکر قند اور قند کو قافیہ کرے تب بھی ایطا نہیں کیونکہ شکر قند سے مراد اسم نکرہ ہے اور ایک پھل کا نام ہے جبکہ قند کا معنی شکر ہے۔

مدرسہ یا دیر تھایا  کعبہ یا بت خانہ تھا

ہم سبھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

اس میں بھی ایطا نہیں ہے کیونکہ بت خانہ بمعنی واحد مندر کے آیا ہے اور دوسری جگہ صاحب خانہ بمعنی مالک مکان یعنی گھر کے مالک کے معنی میں استعمال ہوا ہے سو اس میں ایطا نہیں ہے کیونکہ تکرار معنی نہیں رہی  مگر کچھ فصحائے حال اس کو ایطائے جلی اور تکرارِ ظاہر کہتے ہیں۔

رکھے سیپارہِ  گل کھول آگے عندلیبوں کے

چمن میں پھول گویا آْج ہیں تیرے شہیدوں کے

اس میں ایطائے جلی ہے کیونکہ حرف نون جو روی واقع ہوا ہے  افادہ معنی جمع کا دیتا ہے اور دونوں مصرعوں میں ایک ہی  معنی کا آیا ہے لہذا ایطائے جلی ہے۔

ہستی کو مثلِ نقشِ کف پا مٹا چکے

عاشق نقاب شاہد مقصود اٹھا چکے

چوڑیوں کو نہ تم بڑھا رکھنا

مہندی ہرگز نہ تم اٹھا رکھنا

تہنیت رعد نے چلا کے سنائی کیسی

ہاں میں ہاں کوند کے بجلی نے ملائی کیسی

ان میں تمام افعال متعدی ماضی آئے ہیں یعنی لازم سے متعدی بناکر استعمال کئے گئے ہیں ۔ بعض اساتذہ  اس کے قائل ہیں کہ الف تعدیہ اصلی ہے اور امر متعدی میں بھی نہیں بدلتا اس لئے اس میں ایطا ظاہر نہیں ہوسکتا۔ اکثر کہتے ہیں کہ الف  تعدیہ الگ معنی رکھتا ہے اور افادہ معنی متعدی کے لئے آتا ہے اور فعل لازم میں قائم نہیں رہتا لہذا معنی مستقل رکھتا ہے لیکن تکرار پوشیدہ ہے اس واسطے ایطائے خفی ہے۔

جس دل کو ڈھونڈتا تھا وہ ہم نے بتا دیا

اے دردِ عشق تجھ کو ٹھکانے لگا دیا

قدرت اللہ کی وہ مجھ کو دکھا جاتے ہیں

پتلیاں بن کے وہ آنکھوں میں سما جاتے ہیں

وہ وحشی ہوں کہ کانٹے دشت میں سر پر بٹھاتے ہیں

نکل کر آبلے زیر قدم آنکھیں بچھاتے ہیں

جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا

اس آئینہ کو خاک میں اس نے  ملا دیا

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

جن شعراء نے افعال متعدی کے الف کو مستقل معنی کا تسلیم کر لیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ الف افادہ تعدیہ دیتا ہے انہوں نے ایطا سے بچنے کی یہ ترکیب نکالی ہے کہ اگر افعال کا حرف تعدیہ نکال دیا جائے تو ایک قافیہ بے معنی رہ جائے گا  جیسے بتا دیا میں بتا کا الف نکال ڈالو تو بت ایک بے معنی لفط رہ جائے گا یعنی یہ ایسا متعدی ہے جسکا لازم نہیں آتا اور الف مستقل حرف نہیں ہے یعنی الگ  نہیں ہوسکتا اور الگ کرو تو بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے اس لئے اس میں الف اصلی ہے نقلی /وصلی نہیں دوسرے قافیہ میں الف تعدیہ ایسا ہے جو نکل سکتا ہے اور اپنے مستقل معنی رکھتا ہے یعنی اٹھا کا الف تعدیہ ہے اور افادہ، معنی متعدی کا  دیتا ہے ۔ ایک قافیہ میں الف اصلی ہے  جو اپنے لفظ سے جدا نہیں ہو سکتا اور مستقل معنی نہیں رکھتا جبکہ دوسرے میں الف تعدیہ نقلی ہے جو الگ ہو سکتا ہے اور مستقل معنی رکھتا ہے اس لئے دونوں الف کے معنی جدا ہیں واحد نہیں ہیں لہذا تکرارِ معنی نہیں ہے اس لئے ایطا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح دکھانا اور سمانا دونوں کا الف الگ نہیں ہوسکتا اور غیر مستقل معنی نہیں رکھتا یہ ایطا نہیں ہے، بٹھا اور بچھامیں اگر بٹھا  کا الف نکال ڈالو تو لفظ بے معنی رہ جاتا ہے اس لئے الف غیر مستقل ہے اور بچھا میں الف مستقل ہے اور اپنے الگ معنی رکھتا ہے اس لئے تکرار معنی قائم نہ رہی ۔ دکھا اور ملا میں بھی یہی حالت ہے۔

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی