کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کوفہ میں شور کیسا یہ پروردگار ہے

اٹھا خدا کے گھر سے غموں کا غبار ہے

غم کی فضا زمانے پہ کیسی سوار ہے

ہے خوں چکاں شفق تو زمیں سوگوار ہے

دوڑو نمازیوں کہ ہوئے قتل مرتضیٰ

جبریل کی فلک پہ مسلسل پکار ہے

گہنا گیا ہے چاند شب قدر کا تو اب

اک کرب و اضطراب ہے جو آشکار ہے

غم سے نڈھال قبر میں روتے ہیں مصطفیٰ

زہرا لحد میں پیٹتی سر اشکبار ہے

سجدے میں آج عدل کا پیکر لہو ہوا

دنیا سے آج اٹھ گیا حق کا مدار ہے

کاندھوں پہ جس کے دین محمد کا بار تھا

ڈوبا لہو میں وہ شہ اژدر شکار ہے

خون سے خضاب کرکے پکارے یہ مرتضیٰ

فزت و رب کعبہ ملا اب قرار ہے

منبر اجڑ گیا ہوئی محراب بے اماں

غلطان خوں میں شیر خداوندگار ہے

بعدِ رسول فاطمہ اور آج مرتضی

آل نبی کے غم کا بھی کوئی شمار ہے

اک صبح کوفہ اور ہے اک شام کربلا

سجدوں کو جن پہ تا بہ ابد افتخار ہے

کرب و بلا کا آج سے آغاز ہوگیا

زینب ردا کو دیکھ رہی بار بار ہے

کرتے ہیں نالے کوفے کے بے آسرا یتیم

ِبے وارثوں کا کون رہا غم گسار ہے

صائب شگافتہ ہے سر مرتضیٰ یا آج

ارض و سما میں پیدا ہوا انتشار ہے

۲۵ جون ۲۰۱۶

۴:۲۰ صبح دم فجر

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی