پاگئی ذائقہِ حق جو زبان مشہد میں(منقبت)
منقبت
پا گئی ذائقہِ حق جو زباں مشہد میں
فکر بالیدہ ہوئی حرف جواں مشہد میں
ہستئِ کفر ہوئی ایسے دھواں مشہد میں
عقل حیراں ہے جنوں رقص کناں مشہد میں
بخشنے دینِ محمد کو اماں مشہد میں
مستقر اب بھی علی کا ہے نشاں مشہد میں
آتشِ شوق بھڑک شوزشِ دل اور ابھر
جلوہِ جانِ بہاراں ہے عیاں مشہد میں
تیرے احساسِ مودت نے گرہ کھولی تو
ہو گیا گنگ زباں شیریں بیاں مشہد میں
لحنِ داود میں دے بلبلِ بستانِ رضا
سازِ توحید پہ الفت کی اذاں مشہد میں
جاں فدا پائے شہنشاہِ نجف پر ہے اور
کربلا دل میں بسی اور دل و جاں مشہد میں
قم میں دیکھی لحدِ فاطمہ زہرا کی نظیر
گنبدِ خضراء کا پایا ہے نشاں مشہد میں
چشمِ برآب نے کی جبکہ حکایت دل کی
مشکلیں آئیں نظر محوِ فغاں مشہد میں
میں نے دہلیز رضا پر جو رکھا سجدے میں سر
خود اتر آئی سلامی کو جناں مشہد میں
موت کے سائے یقیں خیز تھے لیکن صائب
یہ تیقن بھی ہوا ایک گماں مشہد میں
۳ اگست ۲۰۱۷ کراچی
سوزخوان و شاعر محترم رضوان نقوی صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ محفل کے لئے خصوصی طور لکھے گئے اشعار