کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

گیا حیات کو اس طرح سرخرو  کرکے

تحریر : صائب جعفری

۱۱ فروری ۲۰۱۴

زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے یعنی کوئی خاص یاداللہ نہیں ہوتی مگر ان کی شخصیت کا عکس دل و دماغ پر نقش ہوجاتا ہے آپ لاکھ چاہیں انہیں بھلا دیں مگر وہ بھلائے نہیں بھولتے ایسے لوگ ان پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو کسی شاخ پر کچھ دیر کے لئے بیٹھتے ہیں لیکن جب شاخ سے اڑتے ہیں تو شاخ بہت دیر تک اس طرح ہلتی رہتی ہے گویا ان کے فراق میں اسکا دل لرزاں اور جگر تپاں ہے.

ایسے ہی لوگوں کی فہرست میںشہید استاد سبطِ جعفر زیدی کا نام بھی آتا ہے ہر چند کے مجھے ان کے دونوں معروف شعبہ جات یعنی سوزخوانی اور شاعری میں ان سے مستفید و مستفیض ہونے کا موقع میسر نہیں ہوا مگر پھر بھی اس زبان نے انکو ہمیشہ استاد کے لقب سے ہی یاد کیا. ہر وقت مسکراتا ہوا چہرہ اور ہور ہمہ وقت دوسروں کے چہرے پر مسکراھٹ بکھیرنے کی چھوٹوں اور بڑوں سے مزاح البتہ دائرۂ اخلاق میں ، شہید کی ایسی صفت تھی جس نے حضرت کو ہر خاص و عام، جانے انجانے اور اپنے پرائے کے دل میں جگہ دی.

ایمانِ محکم، حبِّ اہلِ بیت، اخلاص، بےباکی، خوش اخلاقی، تصنعُ سے پاک ساده طبیعت، خوش گفتاری اور سادگئ لباس کے ہمراه استاد کا نقش ذہن میں ابھرتا ہے اور قول و فعل کی یکسانیت استاد کو دیگر لوگوں سے ممتاز کرتی ہے. شیعت کی ترویج کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہنا اور نامِ حسین پر سب کچھ لٹا دینا وہ جذبات اور احساسات ہیں جن کے بغیر استاد کا تصوّر کم از کم میرے امکان میں نہیں نلکہ یوں کہوں کہ یہ تمام صفات وہ ہیں جن سے استاد کا خمیر اٹھایا گیا تھا تو بے جا نہ ہوگا لہذا یہ تمام صفات استاد شہید کی ذات کا حصہ تھیں اس پر مستزاد یہ کہ شہید نے قوّتِ ایمانی اور جذبۂ حبِ اہلِبیت کے ذریعے ان صفات کے شفاف آئینہ پر مصلحتِ بےجا اور مادّیات کی گرد نہ بیٹھنے دی اور اس عالم زر و خاک کے کہرزدہ ماحول میں بھی آبگینۂ قلب میں اپنے خون سے چراغِ الفت جلائے رکھا اور اسی کی روشنی نے ان کے لئے دارالامراض سے دارالشفا کا راستہ ہمیشہ واضح رکھا اور وہ ہاتھ میں علم عشقِ ابوتراب لئے آخرش اپنی منزل تک پنہچ ہی گئے

اپنی منزل پہ آخر پہنچ ہی گئے آپ کے نقش پا ڈھونڈتے ڈھونڈتے

خوش نصیبی کہ فردوس تک آگئے ہم علم تعزیہ چومتے چومتے

  )قیصر عباس قیصر(

اس طرح انہوں نے اپنے ہی قول کے مطابق شفائے کاملا پالی اورظلمات کی وادی سے وادئ السلام جاپہنچے اوراس منصب پر فائز ہوئے جو خدا نےاپنے خاص بندوں میں سے بھی خواص کے لئے رکھا ہے یعنی راہِ حق میں خوں سے اپنی ریش کو خضاب کرکے جان جان آفرین کے سپرد کردی اور اپنی زندگی خدا کے محبوب کے احباء کے قدموں پر نثار کرکے بالبِ خنداں اپنی دلی مراد پالیـ 

گو کہ آپکا جسمِ نازنین آج منوں مٹی تلے دبا ہوا ہے مگر استاد کے کردار کی خوشبو نے فضاء کو اب تک معطر کیا ہوا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی یہ سوچ کر عطر کی شیشی توڑ ڈالے کہ یوں عطر ضائع ہوجائے گا تو وہ اپنی دانست میں عطر ضائع کردیتا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ شیشی ٹوٹتے ہی وہ خوشبو جو اب تک شیشی کے اندر محدود و مقید تھی، فضائے عالم میں بکھر جائے گی اور اسکی فیض رسانی کا دائرہ لامحدود ہو جائے گاـ یہی حال ہر شہیدِ راہِ حق کاہے جب تک اسکی روح قفس عنصری میں زندانی رہتی ہےاسکا حلقہ محدود رہتا ہے مگر شہادت اسکو وسعت عنایت کردیتی ہےاور وہ لوگ جن تک شہید کا پیغام اور اسکے افکار شہید کی زندگی میںنہیں پنہچے ہوتے، شہادت کے بعد انکے کان بھی شہید کے پیغام سے آشنا ہوجاتے ہیں اور دنیا کے گوش و کنار میں شہید کے کارناموں کا ڈنکا بج جاتا ہےـ باطل اپنے زعم میں حق کو مٹانا چاہتا ہے مگر  اپنی خام خیالی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ جو ضرب بھی جسد حق پر لگاتا ہے وہ حق کی نابودی کے بجائے سربلندئ و استقلالِ حق کا سبب بن جاتی ہے اور باطل کا مکروہ چہرہ نمایاں کر کے حق کے حسن و جمال میں اضافہ کردیتی ہے یوں باطل اپنے ہی وار سے اپنی ہی کمر توڑلیتا ہےـ

ایسا شخص جسکا قول و فعل یکساں ہو اسکیباتیں کبھی نہیں مرتیں استاد بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنکا قول انکا فعل تھا اور جنکا فعل انکا قول تھا وہ شہادت سے ہراساں نہ تھے بلکہ مبلغِ شہادت تھے اور لوگوں کو قتل گاہ کی ترغیب دلایا کرتے تھے خود ھمہ وقت شہادت کے لئے تیار تھے اور شہادت کو شفا قرار دیتے تھےـ انکا ایمان تھا کہ شھادت انسان کو مارتی نہیں ہے بلکہ جلاء بخشتی ہے اس خرابۂ عالم میں روز مرنے والا انسان جب شھادت پاتا ہے تو حیات ابدی پا لیتا ہے اور اس حقیقت سے متصل ہو جاتا ہے جس سے ارتباط کے ارمان میں وہ گھڑیاں گن گن کر لحظاتِ حیاتِ مادّی گذار رہا ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ استاد شہادت کے لئے ایسے ہی بےتاب تھے جیسے شیر خوار  اپنی حاجات کے پورا  ہونے کے لئے آغوشِ مادر کے لئے تڑپتا ہےـ

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا

درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہوجانا

  )غالب(

استاد شھید کے ان جملوں کی بازگشت آج تک میرے کانوں میں ہے جو انہوں نے انجمن وظیفۂ سادات و مومنین پاکستان کے دفتر میں عاشورائے محرم الحرام کے مرکزی جلوس میں ہونے والے دھماکوں کے بعد کہی تھی

"ہماری زندگی یاحسین ہےـ اگر ہماری یہ مادّی زندگی بچ جائے اور اس سے یاحسین پر حرف آئے تو تف ہے ہماری زندگی پر لیکن ہماری زندگی چلی جائے اور یاحسین بچ جائے تو اس بڑا فخر میں نہیںسمجھتا کہ کچھ اور ہوگاـ میرے لئے ہر تمغہ جاتِ امتیاز و نشانِ حیدر سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ لوگ میرے مرنے کے بعد یہ کہیںکہ جو مرا ہے وہ حسینی تھا "

اور ھوا بھی یہی غمِ حسین میں اپنی پرسوز آواز کے ذریعے لوگوں کو رلانے والا اور حسین کی خوشیوں میں اپنی نوائے عاشقانہ کا جادو جگانے والا یہ حسینی نامِ حسین پر اپنی سانسیں نچھاور کرکے آنکھوں کو نمناک اور دلوں خوں نابہ فشاں چھوڑ کر ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیامگر ہمیں راہِ حق پر سب کچھ لٹانے اور زندہ رہنے اور مرنے کا ہنر سکھا گیا۔

فرازِ دار کی ہر لحظہ آرزو کرکے

وہ جی رہا تھا غمِ شہ کو اپنی خو کر کے

نہا کے خون میں اپنے نماز عشق پڑھی

گیا  حیات کو اس طرح سرخرو کرکے

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی