کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

منقبت

عدوئے آل سے  بڑھ کر کوئی ابتر نہیں ملتا

ہے قرآں حفظ لیکن معنئِ کوثر نہیں ملتا

محبت آلِ احمد کی اگر واجب نہیں واعظ

فقط پڑھ لینے سے کلمہ سکوں کیوں کر نہیں ملتا

علی کو بیچ دی اپنی رضا رب نے شبِ ہجرت

خدا کی کیا رضا پائے جنہیں حیدر نہیں ملتا

علی کے جو مقابل جنگ میں آیا گیا جاں سے

مقابل آ کے جو بچ جائے وہ عنتر نہیں ملتا

مئے عشق و ولا دامن میں زہرا کے چھنی ہوگی

تبھی تو جام ایسا کوئی بھی خوش تر نہیں ملتا

کفن میں خاک ہو کربل کی اور درِّ نجف جس کے

فشارِ قبر بھی اس کو کبھی آ کر نہیں ملتا

بڑی حیرت شفاعت کے لئے بے تاب ہیں وہ بھی

جنہیں تاریخ میں پالان کا منبر نہیں ملتا

حقیقت کا بیاں ہے کچھ غلو اس میں نہیں شامل

علی کا دہر میں محسن مجھے ہم سر نہیں ملتا

۱۰ جون ۲۰۰۱ کراچی



موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/05/31
ابو محمد

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی