کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


کچھ ہم پہ نہیں موقوف ثنا ہر ذرہ ہے گویا مدحت میں

خوشبوئے ولائے آلِ نبی شامل ہے گلوں کی  نکہت میں

پرکیف فضائے دہر ہوئی ہے وجد میں کوثر جنت میں

جوبن پہ ہے فطرت کی دلہن خلقت ہے ڈوبی رحمت میں

پھر فصلِ زمستاں ہار گئی رخصت ہوئی ظلم و ستم کی خزاں

اک غنچہِ نورس جب چٹکا زہرا کے باغِ عصمت میں

کچھ خوشبو لے کر قرآں سے، کچھ لے کر گل ہائے مشہد

گلدستہِ مدحت پیش کریں معصومہِ قم کی خدمت میں

اک نور کے دریا میں خود کو پایا ہے میں نے غوطہ زن

بس سنگِ درِ معصومہ پر پیشانی رکھ کر طاعت میں

بس نام کی تیرے برکت سے کشتی کو ملا ساحل کیسے

طوفان بھی ہے حیران کھڑا اور عقل ہے ورطہِ حیرت میں

ہر اک کے مقدر میں ہے کہاں اس در کا مجاور بن جانا

صد شکر سعادت یہ لکھ دی بی بی نے میری قسمت میں

آو کہ چلیں قم کی جانب سر اپنے قدم کرکے کے صائب

اور اشکِ ندامت پیش کریں معصومہ قم کی خدمت میں

۲۵ جولائی ۲۰۱۷ کراچی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی