خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
کون؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
راستہ کون روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
اب نہ گل ہے نہ بلبلیں نہ درخت
بات دل کی کسے سنانے جائیں
ہم قدامت پسند دیوانے
جائیں کیسے جہاں زمانے جائیں
ہے عبث کام پر یہ کرتے ہیں
حسن کو عاشقی سکھانے جائیں
کاش کوئی نہ ہو سر محشر
حاصل عشق جب اٹھانے جائیں
گر طبیبوں کے بس کا روگ نہیں
زخم جلاد کو دکھانے جائیں؟
اس لئے کنج میں پڑا ہوں چپ
گیت بہروں کو کیا سنانے جائیں
ہوگیا ہے یہ حکم بھی صادر
آگئے ہیں نئے پرانے جائیں
تیرے دل سے نکالے جانے کے بعد
ہم.کہاں قسمت آزمانے جائیں
کاش یہ کہہ سکیں کبھی ہم.بھی
ہم.کو.خواہش نہیں کہ جانے جائیں
جملے گھڑ لینا کچھ کمال نہیں
شعر ایسے تو ہوں کہ مانے جائیں
سوچتے ہیں یہ شوخ پروانے
کس طرح شمع کو.بجھانے جائیں
ہم ہیں روٹھے ہوئے مگر صائب
سوچتے ہیں انہیں منانے جائیں
صائب جعفری
۴ فروری ۲۰۲۲
خمین ایران