کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲۰ مطلب در فوریه ۲۰۲۲ ثبت شده است

*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*

*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*

*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی*
*اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*

*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور*
*جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*

*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں*
*جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*

*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن* 
*مقصر، غالی اور ان کے ہر اک حب دار پر لعنت*

*جہاں چرسی موالی اور نُصیری پیر کہلائیں*
*ہو ایسی فکر اور اس فکر کے معمار پر لعنت*

*یہ فن شاعری ہے اک امانت حضرت حق کی*
*خلاف حق جو برتے اس خیانت کار پر لعنت*

*سبب ترویج حق کا ہے وجود نائب مہدی*
*تو پھر صائب دکھاوے کے ہراک دیں دار پر لعنت*

صائب جعفری
Feb 18,2022 
2:32 AM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 18 February 22 ، 02:59
ابو محمد

قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام

 

پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے

یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے

شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے


جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے 
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے

یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے

میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے

مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ  ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے

کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق 
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے

نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے

جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے

صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022 
2:34 AM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 15 February 22 ، 17:11
ابو محمد

محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار

 

کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی

صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی

منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی

سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی

میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی

قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی

دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی

درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی

پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی

یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی

جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی

صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022 
4:47 PM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 February 22 ، 00:05
ابو محمد
بہاروں کی ہے رت موسم ہے عالم میں گلابوں کا
چلو رندوں چلو پھر ذکر ہم.چھیڑیں شرابوں کا
 
مرجب اور معظم ہیں اسی خاطر یہ دونوں ماہ
زمیں پر ان میں اترا ہے قبیلہ آفتابوں کا
 
علاج ظلمت و تحصیل رحمت کے.لئے ہردم
کریں ہم تذکرہ اب فاطمہ کے ماہتابوں کو
 
بدل کر جنگ کے انداز اور ہتھیار کو اصغر
سنوار آئیں ہیں ہنس ہنس.کر مقدر انقلابوں کا
 
رہے اسلام زندہ کفر ہو عالم میں شرمندہ
خلاصہ ہے یہی حق کے صحیفوں کا کتابوں کا
 
کئے تھے راہ گم جس دم علی کے چاہنے والے
خمینی نے دکھایا راستہ تب کامیابوں کا
 
عدالت اور ولایت کا سبق دے کر زمانے کو
خمینی نے بنایا شاہ کو قصہ حبابوں کا
 
 
توکل اور توسل کیجئے ظالم سے مت ڈریے
حسین ابن علی.کا خوں ہے ضامن انقلابوں کا
 
علی کا نام لے جو جو رکھیں سید علی سے بیر
وہ ایسے پیاسے ہیں پیچھا جو کرتے ہیں سرابوں کا
 
عمل سے خود کو ثابت کیجئے علامہ مولانا
نہیں کچھ فائدہ ورنہ لباسوں کا خطابوں کا
 
فراق و ہجر کی سختی میں کیف عشق کی مستی
مزہ لیتا ہے دل  یوں بھی عذابوں کا ثوابوں کا
 
ہماری آنکھ پر ہردے پڑے ہیں تم.نہیں غائب
کہاں تک جائے گا یہ سلسلہ دیکھیں حجابوں کا
 
ہو میرا نام بھی مثل اویس مصطفی لکھا
مرتب ہو اگر محضر کسی دن باریابوں کا
 
سیہ رو ہیں مگر محشر میں پیش خلق دوعالم
بھرم رکھ لینا اے مولا ہمارے انتسابوں کا
 
میں اکثر دیکھتا ہوں خوں کے دریا سے ابھرتا شمس
کوئی مطلب یقینا ہوگا صائب میرے خوابوں کا
 
صائب جعفری
قم ایران
Feb 11,2022 
2:08 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 21:54
ابو محمد
خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
 
 
کون؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
 
راستہ کون روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
 
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
 
اب نہ گل ہے نہ بلبلیں نہ درخت
بات دل کی کسے سنانے جائیں
 
ہم قدامت پسند دیوانے
جائیں کیسے جہاں زمانے جائیں
 
ہے عبث کام پر یہ کرتے ہیں
حسن کو عاشقی سکھانے جائیں
 
کاش کوئی نہ ہو سر محشر
حاصل عشق جب اٹھانے جائیں
 
گر  طبیبوں کے بس کا روگ نہیں
زخم جلاد کو دکھانے جائیں؟
 
اس لئے کنج میں پڑا ہوں چپ
گیت بہروں کو کیا سنانے جائیں
 
ہوگیا ہے یہ حکم بھی صادر
آگئے ہیں نئے پرانے جائیں
 
تیرے دل سے نکالے جانے کے بعد
ہم.کہاں قسمت آزمانے جائیں
 
کاش یہ کہہ سکیں کبھی ہم.بھی
ہم.کو.خواہش نہیں کہ جانے جائیں
 
جملے گھڑ لینا کچھ کمال نہیں
شعر ایسے تو ہوں کہ مانے جائیں
 
سوچتے ہیں یہ شوخ پروانے
کس طرح شمع کو.بجھانے جائیں
 
ہم ہیں روٹھے ہوئے مگر صائب
سوچتے ہیں انہیں منانے جائیں
 
 
صائب جعفری
۴ فروری ۲۰۲۲
خمین ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 February 22 ، 01:00
ابو محمد
 

انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 

بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے

اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے

یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے

یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے

سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے

جو  پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے

یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے

وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے

دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"

سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے

نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے

بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے

طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے

صائب جعفری

صائب جعفری
۲ اگست ۲۰۲۱
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:29
ابو محمد

*ما رأیت الا جمیلا*


جمال حق کی نشاں دہی ما رأیت الا جمیلا
ہے کربلا کا نچوڑ بھی ما رأیت الا جمیلا

یہ راہ حق ہے جزع فزع سے بچا کے ایماں محبوں
مثال زینب کہو سبھی ما رأیت الا جمیلا

حسین کی لاش پر جو پہنچی وہ درد و غم کی ستائی
تو گر کے لاشے پہ کہہ اٹھی ما رأیت الا جمیلا

وہ کربلا خاک و خوں کا دریا جہاں قضا چار سو تھی
وہیں عبارت یہ تھی لکھی ما رأیت الا جمیلا

عطش کی شدت سے قصر باطل تو ڈہ چکا تھا کبھی کا 
سوال بیعت کی موت تھی ما رأیت الا جمیلا

بچا کے لائی جو بعد قتل حسین عابد کو زینب
پکارے ہوں گے یہی نبی ما رأیت الا جمیلا

وہ جلتے خیموں کے درمیاں بھی نماز شب پڑھ رہی ہے
اور اس کی چادر ہے چاندنی ما رأیت الا جمیلا

جمی تھی عرصے سے روئے اسلام پر بنام خلافت
وہ گرد زینب نے صاف کی ما رأیت الا جمیلا

علی کی بیٹی علی کے لہجے میں لب کشا جب ہوئی تو
محل میں گونجی صدا یہی ما رأیت الا جمیلا

ہیں شام و کوفہ میں کربلا میں یوں محو نظّارہ حق
کہ سانس بھی ہے پکارتی ما رأیت الا جمیلا

سناں پہ سب اقربا کے سر تھے بدن تھے ریگ تپاں پر
مگر سخن تھا یہ زینبی ما رأیت الا جمیلا

وہ شام شر وہ دمشق الحاد تھا جسے تو نے زینب
 بنا دیا شہ کا ماتمی ما رأیت الا جمیلا

تمہارا مرہون منت اسلام آج بھی کہہ رہا ہے
یہ کہنا ہمت تھی آپ کی ما رأیت الا جمیلا

ِ ہمیں بھی بنت نبی کی صورت یہ کہنا ہے آج صائب
خوشی کا مو قع ہو یا غمی ما رأیت الا جمیلا


صائب جعفری
قم ایران

Aug 24,2021 
8:50 PM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:26
ابو محمد
صدیوں سے نینوا کی.نوا ہے یہ التجا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
ہے منتظر حسین کا خون انتقام کا، یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
ظلم.و ستم کی.آگ ہے.مولا بہت شدید، گھس بیٹھئیے بنے ہوئے ہیں آج کے یزید
یاور کی.کچھ.خبر ہے نہ.دشمن کا کچھ پتا،یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
الفت کا شہ کی.دیتے ہیں اہل عزا خراج، آغشتہ خوں میں  آج بھی ہیں کربلا مزاج
رکھنے کو.سر بلند غم شاہ کا لوا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
 
لیکن یہ درد دل بھی کروں عرض اے شہا، وہ مجلس حسین جو ہے دین کی بقا
لوگوں نے آج اس کو ہے دھندہ بنا لیا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
اب منبر حسین کی.لگتی ہیں بولیاں،مامور انتظام ہیں مخصوص ٹولیاں
تلتا ہے ڈالروں میں غم سبط مصطفیٰ، یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
مقصد حسین کا ہوا جاتا ہے فوت آہ،غم کا مذاق اڑا کے  کماتے ہیں مال و جاہ
منبر اکھاڑا ہرزہ سرائی کا بن گیا،یا واث الحسین.تنادیک کربلا
 
مٹنے لگی جہان سے غم خواری حسین،اک رسم رہ گئی ہے عزاداری حسین
اب میڈیا کی دوڑ کا میدان ہے عزا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
ایمان اور عقیدہ کو اب کر.رہی ہے سن،نام و نمود حرص و ہوس شہرتوں کی.دھن
سارا خلوص ہو گیا نذرانہ ریا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
منظور خودبخود کوئی معروف خودبخود، یعنی کہ فاتحہ پئے اخلاص خواندہ شد
اقدار کا جنازہ بھی ہم کر.چکے ادا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
پڑھتے نہیں نماز مگر ضد میں آن کے*، مجلس کا ہیں مقابلہ کرتے نماز سے
خود کو فقیہ سمجھے ہوئے ہیں یہ بے حیا ، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
ہم نے عزائے شہ کا بجایا ہوا ہے بینڈ، اشک عزا کا نام بھی رکھا گیا ٹرینڈ
ہائے کہ خشک ہوتا ہے  رومال سیدہ، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
جس کے لئے کٹایا شہ دیں نے اپنا سر، جس کے لئے لٹایا شہ دیں نے گھر کا گھر
اس دین پر ہی آن بنی اب تو با خدا، یاوارث الحسین.تنادیک کربلا
 
رخنہ.پڑا ہوا جو.نگاہ حیا میں ہے،بے پردگی کا دور جلوس عزا میں ہے
پیغام کربلا کا بہر طور مرچکا،یا.وارث الحسین تنادیک کربلا
 
سوز و سلام مرثیے سنگیت بن گئے، سرتال اور تھرک سے ہیں نوحے سجے ہوئے
شام غزل ہے مجلس و ماتم بنا دیا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
 
آجائیے کہ پھر سے غم شاہ جی اٹھے،حق کا چراغ منبر مجلس پہ پھر جلے
کعبہ میں مجلس غم شبیر ہو بپا،یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
رکھئے نظر کرم کی مجھ ایسے پہ یا امام،بس آپ کی رضا کا طلب گار ہے غلام
حق کے بیاں کا دیجئے صائب کو حوصلہ یا وارث الحسین تنادیک کا کربلا
 
 
*(ضد میں آن کے کی ترکیب امروہہ میں یونہی رائج ہے)
 
صائب جعفری
Aug 21,2021 
12:34 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:23
ابو محمد

ہے دین کا سرمایہ ھیھات مناالذلہ
پیغام ہے کربل کا ھیھات مناالذلہ

شہ نے سوال بیعت کہہ کر یہی ٹھکرایا
ہم ہیں نبی کا کنبہ ھیھات مناالذلہ

چاہے کٹے گھر سارا قیدی بنے سب کنبہ
ظالم سے ہے ٹکرانا ھیھات منا الذلہ

سن حاکم یثرب مثلی لا یبایع مثلہ
کہہ دے خلیفہ سے جا ھیھات مناالذلہ

شب بھر رہے گا قیدی پر صبح دم آئے گا
حرِّ دلاور کہتا ھیھات مناالذلہ

وہ عصر کا ہنگامہ شبیر کا وہ سجدہ
بے نطق ہی.کہتا تھا ہیہات مناالذلہ

گو سخت وہ منزل تھی شبیر نے پر سر کی
بیٹا تھا اربا اربا ھیھات مناالذلہ

شش ماہہ تھا پیاسا تھا سوکھا گلہ لایا تھا
پر تیر تھا سہ شعبہ ھیھات مناالذلہ

شبیر کی نصرت میں شیر خدا کا ضیغم
شانے کٹا کر بولا ھیھات مناالذلہ

احلی عسل سے جسکو تھی موت وہ قاسم بھی
میدان میں ہے بکھرا ھیھات مناالذلہ

جون و حبیب و مسلم کلبی بریر و حجاج
شہ کا بنے ہیں فدیہ ھیھات مناالذلہ

عون و محمد قاسم عباس اکبر اصغر
اک اک کا دیکھا لاشہ ھیھات مناالذلہ

انصار شاہ دیں کے بے دم.پڑے ہیں رن.میں
شہ رہ گئے ہیں تنہا ھیھات منا الذلہ

خنجر لئے اک ظالم سوئے نشیب آتا ہے
سرور ہیں محو سجدہ ھیھات مناالذلہ

شبیر کی.گردن پر ضربیں لگاتا ہے شمر 
اور دیکھتی ہے بہنا ھیھات مناالذلہ

نوک سناں پر شہ کے سر نے کیا ہے اعلاں
آ دیکھ لے اے دنیا ھیھات منا.الذلہ

دربار میں کوفہ کے اور شام کے محلوں میں 
زنجیر کا تھا ںغمہ ھیھات من الذلہ

اعلاں ہےفتح سرور کا شام اور کوفہ میں
بنت علی کا خطبہ ھیھات منا الذلہ

دریا کنارے رن میں خون و عطش سے دیکھو
ہارا ہےباطل ہارا ھیھات منا الذلہ

عزت خدا کی ہے بس سن اے بن مرجانہ
ذلت ہے تیرا حصہ ھیھات منا الذلہ

مقتول باعزت ہے قاتل ذلیل و رسوا
یہ فیصلہ ہے رب کا ھیھات مناالذلہ

سرور تو سرور تھے پر بچوں سے بھی ظالم تو
بیعت نہیں لے پایا ھیھات مناالذلہ

ہم ہیں علی کے پیرو شبیر کے خادم ہیں
سو اپنا بھی ہے نعرہ ھیھات منا الذلہ

کیا خوب ہے اے صائب تلخیص عاشورا کی
شبیر کا یہ جملہ ھیھات منا.الذلہ


صائب جعفری
۲ محرم الحرام ۱۴۴۳
Aug 11,2021
 10:09 PM 
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:21
ابو محمد
میں ہوں حسینی مرا وقار ما لی امیر سوی الحسین
قید و شہادت ہیں افتخار ما لی امیر سوی الحسین
 
خوں رنگ فکر صنم تراش آواز خامہ ہے پر خراش
کہتی ہے یہ آنکھ اشکبار ما لی امیر سوی الحسین
 
راہ عمل میں بڑھو شتاب آئے نہ دل میں کچھ اضطراب
ہر اک کا ہو بس یہی شعار مالی امیر سوی الحسین
 
روشن کرو قلب کا ایاغ حق کا ملے گا تمہیں سراغ
دل سے کہو تم جو ایک بار مالی امیر سوی الحسین
 
سوتے ہیں انساں اگرچہ آج جاگیں گے کل جب یہ حر مزاج
گونجے گی گھر گھر یہی پکار مالی امیر سوی الحسین
 
کہتے تھے مسلم بن عقیل سن غور سے اے بن ذلیل
میں ہوں علی کے پسر کا یار ما لی امیر سوی الحسین
 
تشنہ لبی میں لڑے کمال اصحاب شبیر خوش خصال 
کھینچے ہوئے تھے سبھی حصار مالی امیر سوی الحسین
 
حیدر کاشش ماہہ شیر مرد ہنس کے قضا سے کرے نبرد
کہتا ہے پیکاں سے شیر خوار مالی امیر سوی الحسین
 
کچھ بھی نہیں ہے بجز ضیاع بہر قیامت مری متاع
ہاں بس اسی پر ہے اعتبار ما لی امیر سوی الحسین
 
اس میں تو صائب نہیں کلام مقبول حق ہے ترا سلام
جب ہے ردیف ایسی شاندار مالی امیر سوی الحسین
 
صائب جعفری
۱۰ اگست ۲۰۲۱
اول.ماہ محرم ۱۴۴۳
۱۲:۳۰ نصف اللیل
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:19
ابو محمد
وجود خدا کی بنا جو دلیل امیری حسین و نعم الامیر
خدا کا جو مظہر ہوا بے عدیل امیری حسین و نعم الامیر
 
فقط یہ نہیں نوع انساں کی بات یہ آواز ہے نغمۂ ممکنات
جوسنتے ہو کہتے ہیں یہ جبرئیل امیری حسین و نعم الامیر
 
لہو رنگ صحرا وہ شدت کی پیاس پکارے اے سید اے دیں کی اساس
تمہی خلد و کوثر ہو تم سلسبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
پئے دوستان خداوند مہر پئے دشمنان خداوند قہر
یہ ہیں معنئ عرش رب جلیل امیری حسین و نعم الامیر
 
وہ ہنگام سجدہ کے راز و نیاز کھلا جس سے خلق خدا پر یہ راز
ہے رب تک پہنچنے کی تنہا سبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
شہیدوں کو وہ روز تھا روز عید شہادت یہ دیتا تگا ہر اک شہید
تیرا قول حق ہے اے ابن عقیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تسلط کئے تھی جو باطل کی فوج ہے نوحہ کناں آج تک موج موج
فرات اور دجلہ ہیں تیرے علیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تیرے غم کی مجلس کا ہے یہ کمال ملک اشک موتی میں دیتے ہیں ڈھال
سبیلوں میں ہے پرتوے سلسبیل امیر حسین و نعم الامیر
 
ہدایت بسوئے صراط حمید یہ طوبیٰ لھم کی نمایاں نوید
اسی کے ہیں جو کہہ دے بے قال و قیل امیری حسین و نعم الامیر
 
جواں سال میت یا لاش صغیر احباء کا غم ہو یا فاقوں کے تیر
تأسّی میں تیری مصائب جمیل امیری حسین و نعم الامیر
 
 
جو عشق صمد کا ہے صائب سفیر وہی میرا مولا وہی میرا پیر
وہی جس کو اشکوں کا کہئے قتیل امیری حسین و نعم الامیر
 
صائب جعفری
قم ایران
۵ جولائی ۲۰۲۰
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:16
ابو محمد
چوروں کے نام.....
 
سمجھتے ہیں نہ سمجھیں گے انہیں اخیار چوری کے
 عیاں ہر چند ہر مصرع سے ہوں آثار چوری کے
 
بنے بیٹھے ہو تم جو شاعر آل نبی سوچو
محمد کو سنا سکتے ہو یہ افکار چوری کے؟
 
ملے گا بیت بدلے بیت لیکن یہ بتا مجھ کو
کہاں لے جائیں گے تجھ کو یہ سب اشعار چوری کے
 
یہ شاگردوں کے ٹولے بھی لئے پھرتے ہیں اپنے ساتھ
کلام انکو بھی دیتے ہیں یہ ناہنجار چوری کے
 
بعنوان سلام و منقبت، نوحہ، غزل صائب
لگے ہیں فیس بک پر جا بجا انبار چوری کے
 
 
صائب جعفری
Aug 02,2021 2:51 AM 
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:12
ابو محمد

تہران میں پاکستانی سفارت خانہ میں اقبال کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں

اقبال کی زمیں میں اقبال.کے شعر سے استفادہ کرتے ہوئے ......
 
 
 
دیار شوق میں شمعیں جلا کر
وہ سویا ہے پہ ملت کو جگا کر
 
کہن رسموں سے باغی کرگیا ہے
وہ امت کو نئی راہیں دکھا کر
 
کئی اک بت کدے ویراں کئے تھے
خودی کو مدعا اپنا بنا کر
 
بہت خوش ہوگا اپنے مقبرے میں
وہ.اپنے خواب کی تعبیر پاکر
 
مسلماں ہے وہی جس نے رکھا ہے
کتاب حق کو.سینے میں بسا کر
 
لحد میں سو گیا ہے وہ سکوں سے
نشاں یہ مرد مومن کا بتاکر
 
وہ خوش تھا مطمئن تھا سارے اسباق
فقیروں کو امیری کے پڑھا کر
 
مگر کیا کہئے ہم ہیں آج برباد
چراغ علم و حکمت کو بجھا کر
 
 ہیں سرگرداں زمانے میں مسلماں
رموز آدمیت کو بھلا کر
 
مثال حضرت اقبال صائب
مسلمانوں کے حق میں یوں دعا کر
 
جنہیں نان جویں بخشی ہے یارب
انہیں بازوئے حیدر بھی.عطا کر
 
 
صائب جعفری
قم ایران
 
10:37 PM Nov 12,2021

 پڑھے گئے 

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:49
ابو محمد
راز نفوس عشق ہے رمز عقول عشق ہے
ہو کے چمن میں جو کھلا پہلاوہ پھول عشق ہے
 
ذرہ سے تا بہ عرش حق حق کی تجلیات میں
عبد خدا وہی ہوا جس کو قبول عشق ہے
 
عجز کے مارے ڈر گئی خلق خدا تو بن گیا
بہر امانت خدا عبد جہول عشق ہے
 
 
قلب نبی پہ ایک بار رب نے اتار دی کتاب
پھر یہ حرا سے خم تلک وحی کا طول عشق ہے
 
 
وحی تمام ہوچکی کب کی مگر یہ آج تک
قدر کی شب میں ہوتا ہے جسکا نزول عشق ہے
 
نقش قدم کا.مصطفی کے ہے یہ معجزہ عجب
راہ روئےصراط احمد کو وصول عشق ہے
 
خال رخ عبودیت، سرمہ چشم حق ہوئی
پائے محمدی.سے اٹھتی ہوئی.دھول.عشق ہے
 
شق قمر ہو رد شمس سارے ہی معجزات میں
قدرت حق کے ساتھ ہے جس کا شمول عشق ہے
 
 
عشق کی چیرہ دستیاں کیوں نہ ہوں دل پسند جب
بدر و احد سے تا بہ طف سارا حصول عشق ہے
 
عشق میں عاشق اور معشوق جدا جدا نہیں
رب رسول عشق ہے رب کا رسول عشق ہے
 
سجدہ شکر شاہ سے سر یہ ہوا ہے برملا
عشق کی اصل دین ہے دیں کا اصول عشق ہے
 
بہر خدا نہ ہو اگر، خواہش نفس ہے فقط
پھر ہو کسی کے ساتھ بھی کار فضول عشق ہے
 
روح تلک اتر گیا قلب کا ان کے اضطراب
جن کی ہوس کی دید میں جسموں کی بھول عشق ہے
 
راہ خدا پہ عرصہ باطل و حق میں صائبا
رزم ابوتراب اور عزم بتول عشق ہے
 
Dec 14,2021 
12:40 AM 
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:41
ابو محمد
سخن نا آشنا ہے
ہمیں جو بھی ملا ہے
 
کوئی روٹی کی خاطر
شرافت بیچتا ہے
 
یہاں قائم ازل سے
الم کا سلسلہ.ہے
 
سحر فائدہ کیا
کہ دل تو بجھ چکا ہے
 
خموشی کا تسلسل
بہت صبر آزما ہے
 
فراق و ہجر کی کہہ
بتا مت وصل کیا ہے
 
تصور میں جو آئے
بھلا وہ بھی خدا ہے؟
 
بتایا کربلا نے
لہو بھی بولتا ہے
 
تجھے مرنا پڑے گا
کہ تو سچ بولتا ہے
 
یہ صائب کا فسانہ
فسانہ عشق کا ہے
 
Dec 24,2021 
12:33 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:38
ابو محمد
تو ہے جاں سے قریں تو پھر کیونکر
کاسہ دل لئے پھروں در در
 
دم بدم موت کھا رہی ہے مجھے
دم بدم ہو رہا ھوً زندہ تر
 
لا مکاں سے عجب ہے یہ نسبت
میں مکاں مند ہوں مگر بے گھر
 
خود ہی منزل ہوں خود مسافر ہوں
مجھ کو در پیش ہے اک ایسا سفر
 
ہیں عذاب و ثواب سب کے سب
حاصل اختیار نوع بشر
 
آپ کو پاکے ملتفت مرا دل
ہو کے عالم کا ہوگیا خو گر
 
آسماں تک رہا ہے حسرت سے
لگ گئے جب سے مجھ کو عشق کے پر
 
یہ جو مجھ میں انا کا ہے عنصر
ظاہرا یہ بھی ہے ترا ہی اثر
 
فتوئے کفر کو کہے تمغہ
ایک عاشق سوا ہے کسکا جگر
 
شہر دل کے لئے شب یلدا
ہے اماوس کی رات کا منظر
 
مجھ کو معلوم ہی نہ تھا صائب
تو ازل سے ہے مجھ میں جلوہ گر
 
،Dec 24,2021 
12:37 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:37
ابو محمد

عزیز رہبر ملت سلام ہو تم پر
نقیب لشکر حجت سلام ہو تم پر

نصیب ہر کس و ناکس کو کب ہے یہ رفعت
اے انتخاب شہادت سلام ہو تم.پر

تمہارے نام سے لرزاں ہے اب بھی کفر کا جسم
مجاہدین کی ہیبت سلام ہو تم پر

ریاض عشق کے پودوں کی آبیاری کو
ہوئے ہو خون میں لت پت سلام ہو تم پر

صراط حیدر کرار پر بڑھاتے قدم
چلے گئے سوئے جنت سلام ہو تم پر

لہو سے اپنے پھر اک بار تم نے کر ڈالا
نصیب کفر ہزیمت سلام ہو تم پر

رہ امام دکھانے کو بن گئے قاسم
چراغ راہ ہدایت سلام ہو تم پر

دعا ہے صائب خستہ جگر کو مل.جائے
تمہارے پہلو میں تربت سلام ہو تم پر

صائب جعفری
۱۵ نومبر ۲۰۲۰
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:33
ابو محمد
رافت کا محبت کا ہے یم بھی سلیمانی
اور عشق ولایت کا عالم بھی سلیمانی
 
اسلام کے دشمن کو پیغام اجل بھی ہے
اسلام کے لشکر کا ہمدم بھی سلیمانی
 
مظلوموں کی خوشیوں کا باعث تھا جہاں بھر میں
اور ٹوٹے دلوں کا تھا مرہم بھی سلیمانی
 
تفسیر اشدا کی شرحِ رحما یعنی
شعلہ بھی سلیمانی شبنم بھی سلیمانی
 
تھا ابن حسن قاسم اس نام کی نسبت سے
پامالئ تن کا تھا محرم بھی سلیمانی
 
نازاں ہے بہت تیرے بازوئے بریدہ پر
انگشت میں رہبر کی خاتم بھی سلیمانی
 
مالک بھی شجاعت پر تیری کر اٹھے اش اش
دیتے ہیں تجھے تحسیں میثم بھی سلیمانی
 
ہے فخر ہمیں تیری جرأت پہ بہت لیکن
ہے دل میں بپا تیرا ماتم بھی سلیمانی
 
صائب یہی حسرت ہے اے کاش کہ.ہوجائیں
تقدیم ترے قدموں پر ہم.بھی سلیمانی
 
صائب جعفری
قم المقدس
Dec 14,2021 ـ
2:36 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:31
ابو محمد
طرحی منقبت
طرح: *زینت بزم کسا ٹھہریں جناب فاطمہ*
 
مصطفی جانیں یا جانے بوتراب فاطمہ
 غیر کے بس میں کہاں عرفان باب فاطمہ
 
خلقت کونین کی علت سے اٹھ جائے حجاب
گر سمجھ جائے جہان کن نصاب فاطمہ
 
اسم الباطن کے اظہار و تجسم.کے لئے
علم خالق میں ہوا تھا انتخاب فاطمہ
 
رحمت عالم پہ رحمت کا یہی.مطلب توہے
انفس و آفاق ہیں زیر سحاب فاطمہ
 
اک حقیقت آشکارا ہے وجود مصطفیٰ
اور اسکا جزء لاینفک جناب فاطمہ
 
ہے ولایت نامکمل ان کی ہستی کے بغیر
اس لئے ام ابیھا ہے خطاب فاطمہ
 
آگے آگے مصطفی ہیں پیچھے پیچھے مرتضی
انتظام حق ہے یہ بہر حجاب فاطمہ
 
قدسیوں کو ورطہ حیرت سے دینے کو نجات
زینت بزم کسا ٹھہریں جناب فاطمہ
 
ہے بپا جن سے جہاں میں خیمۂ دین خدا
اک ستون مرتضی ہے اک طناب فاطمہ
 
بس فدک آب و نمک پر ہی نہیں ہے منحصر
کائنات کبریا ہے انتساب فاطمہ
 
در جلا کر تم یہ سمجھے تھے کہ مٹ جائے گا دیں
دیکھ لو یہ کربلا ہے انقلاب فاطمہ
 
چن کے لے جائےگی جنت میں عزاداروں کو خود
حشر کے میدان سے چشم صواب فاطمہ
 
عبد پر صائب کھلے کیا ذات بنت مصطفیٰ
عبدیت تو بس ہےاک باب کتاب فاطمہ
 
صائب جعفری
 
Jan 23,2022 
1:01 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:27
ابو محمد

موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)

کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا

دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا

بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی

امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں

غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت

پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی

کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں

تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال

ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے

دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا

علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر

یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر

ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا

انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب

تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو

ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست

السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام

انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام

انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات

صائب جعفری

Feb 03,2022 
8:24 PM 
خمین ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:24
ابو محمد