*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*
*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*
*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی*
*اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*
*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور*
*جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*
*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں*
*جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*
*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن*
*مقصر، غالی اور ان کے ہر اک حب دار پر لعنت*
*جہاں چرسی موالی اور نُصیری پیر کہلائیں*
*ہو ایسی فکر اور اس فکر کے معمار پر لعنت*
*یہ فن شاعری ہے اک امانت حضرت حق کی*
*خلاف حق جو برتے اس خیانت کار پر لعنت*
*سبب ترویج حق کا ہے وجود نائب مہدی*
*تو پھر صائب دکھاوے کے ہراک دیں دار پر لعنت*
صائب جعفری
Feb 18,2022
2:32 AM
قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام
پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے
یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے
شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے
جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے
یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے
میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے
مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے
کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے
نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے
جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے
صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022
2:34 AM
محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی
صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی
منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی
سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی
میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی
قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی
دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی
درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی
پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی
یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی
جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی
صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022
4:47 PM
موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)
کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا
دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا
بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی
امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں
غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت
پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی
کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں
تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال
ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے
دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا
علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر
یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر
ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا
انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب
تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو
ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست
السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام
انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام
انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات
صائب جعفری
Feb 03,2022
8:24 PM
خمین ایران
انجمن ادبی اقبال لاہوری کی جانب سے پندرہ روزہ طرحی شعری نشست بعنوان "مشق سخن" محترم احمد شہریار صاحب کی زیر سرپرستی قم ایران میں منعقد ہوتی ہے اس بار مصرع طرح: "تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں" تھا جس.پر خاکسار نے بھی کچھ اشعار موزوں کئے وہ احباب کی.نذر کرتا ہوں.
دنیا سمجھ رہی ہے کہ دھوکا ملا ہمیں
صد شکر کہ حسین.کا سودا ملا ہمیں
ڈوبے ہیں انبساط کی چاہت میں زر پرست
اور ہم.ہیں خوش حسین پہ رونا ملا ہمیں
آسان منزلیں ہوئیں غیب و شہود کی
نام علی سے جونہی سہارا ملا ہمیں
اخلاص کی مثال جو ہم.ڈھونڈنے چلے
تو فاطمہ کے لعل کا سجدہ ملا ہمیں
علم و عمل کے سائے میں عرفان کردگار
کرب و بلا کے دشت میں.یکجا ملا ہمیں
بیچا ہے عشق شاہ کے بدلے میں.نفس کو
بس اس معاملے.میں نہ گھاٹا ملا ہمیں
پیاسے بھٹک رہے تھے سرابوں کے درمیاں
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"
خون حسین نے کیا سیراب اس طرح
پھر کربلا میں کوئی نہ پیاسا ملا ہمیں
مانگی بہار خلد تو از جانب خدا
عباس کے علم کا پھریرا ملا ہمیں
رومال فاطمہ کی ہیں زینت ہمارے اشک
کیسا گراں.بہا یہ اثاثہ ملا ہمیں
غازی کو آتا دیکھ کے کہنے لگے عدو
کاندھوں اپنے اپنا جنازہ ملا ہمیں
دنیا کے درد و غم سے رہائی کے واسطے
لبیک یاحسین وظیفہ ملا ہمیں
فرش عزا پہ آؤ تو خود جان جاؤ گے
کیسے خدا کی خلد کا رستہ ملا ہمیں
اللہ نبی علی و جناں حریت وفا
اک کربلا سے دیکھئے کیا کیا ملا ہمیں
دل کو طواف حج کی سعادت بھی مل گئی
جب نقش پا میں آپ کے کعبہ ملا ہمیں
صائب فقط فرات کا ساحل ہے وہ جہاں
شمس و قمر کا نور اکھٹا ملا ہمیں
صائب جعفری
۱۸ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران
مورخہ تین فروری ۲۰۲۱ کو برادر ہادی ولایتی کی رہائش گاہ پر ایک طرحی محفل سننے کے لئے پہنچا تو برادر عزیز مصر ہوگئے کہ آپ کو کلام پڑھنا ہے مصرع طرح قائم امروہوی صاحب کی.منقبت سے لیا گیا تھا سو کوئی ۵ سے ۷ منٹ میں یہ ۵ شعر موزوں ہوئے اور یہی پڑھ دیئے شاید ان کو فی البدیہہ کہہ سکتے ہیں
چاہئے بس مرضی معبود اکبر فاطمہ
لکھ رہا ہوں منقبت تیری برابر فاطمہ
انعکاس قوت خالق علی کی ذات ہے
عفت و عصمت کے آئینے کا جوہر فاطمہ
ہیں ترے دریوزہ گر کروبیاں ارض و سما
یعنی تو بھی ہے غنا میں رب کا مظہر فاطمہ
لحن.خالق میں قصیدہ آپ کا کہتے ہوئے
آیتیں اتریں ہیں اکثر آپ کے گھر فاطمہ
آپ کا صائب شفاعت اور شفا کے واسطے
اٹھ کے جائے آپ کے در سے کہاں پر فاطمہ
۳ فروری ۲۰۲۱
1. اگر کرب و بلا کی معرفت تقدیر ہوجائے
ہر اک غم کے لئے اشک عزا اکسیر ہوجائے
2. اگر اخلاص ہو تجھ میں تو اے شبیر کے شاعر
قلم شمشیر بن جائے قلم شمشیر ہوجائے
عزاداروں سے خطاب
(بشکل مثنوی)
سرخئِ خون شفق نے یہ افق پر لکھ دیا
اے زہے قسمت کہ پھر درپیش ہے شہ کی عزا
عید غدیر خم تمام مسلمانوں کو مبارک ہو
شب گذشتہ قم میں کی ایک محفل کے لئے لکھی اور پڑھی گئی طرحی منقبت بمناسبت عید غدیر خم
مئے عشق کے خم لنڈھائے گئے ہیں
بہاروں کے نغمے سنائے گئے ہیں
علی کی ولایت کا اعلان کرکے
مرثیہ
تحقیق و تدوین: سید صائب جعفری
مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت یا شہادت پر اس کے اوصاف بیان کر کے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ اردو میں مرثیہ کا لفظ میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے دیگر رفقا کی شہادت کے بیان سے مخصوص ہو گیا ہے۔ دیگر لوگوں کی موت پر کہے جانے والے مرثیوں کو شخصی مرثیہ یا تعزیتی نظم کہا جاتا ہے۔
مرثیہ کے اجزائے ترکیبی
:
*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*
مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*
بے کراں درد کی جاگیر کو اپنا کرکے
کوئی اک بھی نہ جیا آج تلک جی بھر کے
بت شکن لے کے اٹھا عشق کا تیشہ جس دم
خود بخود کٹ کے زمیں پر گرے ہاتھ آذر کے
.
۱.کفر و نفاق و شرک کے مرگ و مفر کا نام
شعبان ہے لقائے خدا کے سفر کا نام
۲.عالم بعرض وسعتِ شوقِ وصالِ یار
ہے نفسِ مطمئنہ کی فتح و ظفر کا نام