کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۹ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نظم صائب» ثبت شده است

بزم استعارہ(قم مقدس ایران) کی ہفتہ وار شعری تنقیدی نشست میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر
 
وسعت بیاں میں چاہئے موزوں زمانہ چاہئے
یونہی نہیں ہر راز سے پردہ اٹھانا چاہئے
 
سارے کا سارا دیں ریا کاری میں ہے سمٹا ہوا
سو اپنی دیں داری زمانے کو دکھانا چاہئے
 
خود اپنے ہاتھوں خود کو علامہ کی دے کر اک سند
مولانا صاحب آپ کو چینل بنانا چاہئے
 
علم و عمل سے آپ ہیں عاری مگر ہر حال میں
منبر پہ چڑھ کر وعظ تو سب کو سنانا چاہئے
 
دستار عالیشان ہونا چاہئے سر پر سجی
کس نے کہا قرآن بھی عالم کو آنا چاہئے
 
بس فرض ہے محفل میں اول وقت میں مجھ پر نماز
تنہائی میں وقت قضا تک وقت جانا چاہئے
 
اپنے سوا ہر تارک جمعہ کو کافر جان کر
ملّا کو خود بازار میں جمعہ بِتانا چاہئے
 
یہ کچھ تکبر تو نہیں یہ تو ہے پگڑی کا کمال
ہر ایک کو ہر اک جگہ نیچا دکھانا چاہئے
 
کچھ تو بیاں کرنا ہے صائب کی نکوہش ہی سہی
ہر دم زبان خلق کو کوئی فسانہ چاہئے
 
صائب جعفری
قم المقدس ایران
3:00 PM
May 06,2022
۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 May 22 ، 00:36
ابو محمد
صدیوں سے نینوا کی.نوا ہے یہ التجا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
ہے منتظر حسین کا خون انتقام کا، یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
ظلم.و ستم کی.آگ ہے.مولا بہت شدید، گھس بیٹھئیے بنے ہوئے ہیں آج کے یزید
یاور کی.کچھ.خبر ہے نہ.دشمن کا کچھ پتا،یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
الفت کا شہ کی.دیتے ہیں اہل عزا خراج، آغشتہ خوں میں  آج بھی ہیں کربلا مزاج
رکھنے کو.سر بلند غم شاہ کا لوا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
 
لیکن یہ درد دل بھی کروں عرض اے شہا، وہ مجلس حسین جو ہے دین کی بقا
لوگوں نے آج اس کو ہے دھندہ بنا لیا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
اب منبر حسین کی.لگتی ہیں بولیاں،مامور انتظام ہیں مخصوص ٹولیاں
تلتا ہے ڈالروں میں غم سبط مصطفیٰ، یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
مقصد حسین کا ہوا جاتا ہے فوت آہ،غم کا مذاق اڑا کے  کماتے ہیں مال و جاہ
منبر اکھاڑا ہرزہ سرائی کا بن گیا،یا واث الحسین.تنادیک کربلا
 
مٹنے لگی جہان سے غم خواری حسین،اک رسم رہ گئی ہے عزاداری حسین
اب میڈیا کی دوڑ کا میدان ہے عزا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
ایمان اور عقیدہ کو اب کر.رہی ہے سن،نام و نمود حرص و ہوس شہرتوں کی.دھن
سارا خلوص ہو گیا نذرانہ ریا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
منظور خودبخود کوئی معروف خودبخود، یعنی کہ فاتحہ پئے اخلاص خواندہ شد
اقدار کا جنازہ بھی ہم کر.چکے ادا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
پڑھتے نہیں نماز مگر ضد میں آن کے*، مجلس کا ہیں مقابلہ کرتے نماز سے
خود کو فقیہ سمجھے ہوئے ہیں یہ بے حیا ، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
ہم نے عزائے شہ کا بجایا ہوا ہے بینڈ، اشک عزا کا نام بھی رکھا گیا ٹرینڈ
ہائے کہ خشک ہوتا ہے  رومال سیدہ، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
جس کے لئے کٹایا شہ دیں نے اپنا سر، جس کے لئے لٹایا شہ دیں نے گھر کا گھر
اس دین پر ہی آن بنی اب تو با خدا، یاوارث الحسین.تنادیک کربلا
 
رخنہ.پڑا ہوا جو.نگاہ حیا میں ہے،بے پردگی کا دور جلوس عزا میں ہے
پیغام کربلا کا بہر طور مرچکا،یا.وارث الحسین تنادیک کربلا
 
سوز و سلام مرثیے سنگیت بن گئے، سرتال اور تھرک سے ہیں نوحے سجے ہوئے
شام غزل ہے مجلس و ماتم بنا دیا، یا وارث الحسین تنادیک کربلا
 
 
آجائیے کہ پھر سے غم شاہ جی اٹھے،حق کا چراغ منبر مجلس پہ پھر جلے
کعبہ میں مجلس غم شبیر ہو بپا،یاوارث الحسین تنادیک کربلا
 
رکھئے نظر کرم کی مجھ ایسے پہ یا امام،بس آپ کی رضا کا طلب گار ہے غلام
حق کے بیاں کا دیجئے صائب کو حوصلہ یا وارث الحسین تنادیک کا کربلا
 
 
*(ضد میں آن کے کی ترکیب امروہہ میں یونہی رائج ہے)
 
صائب جعفری
Aug 21,2021 
12:34 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:23
ابو محمد
چوروں کے نام.....
 
سمجھتے ہیں نہ سمجھیں گے انہیں اخیار چوری کے
 عیاں ہر چند ہر مصرع سے ہوں آثار چوری کے
 
بنے بیٹھے ہو تم جو شاعر آل نبی سوچو
محمد کو سنا سکتے ہو یہ افکار چوری کے؟
 
ملے گا بیت بدلے بیت لیکن یہ بتا مجھ کو
کہاں لے جائیں گے تجھ کو یہ سب اشعار چوری کے
 
یہ شاگردوں کے ٹولے بھی لئے پھرتے ہیں اپنے ساتھ
کلام انکو بھی دیتے ہیں یہ ناہنجار چوری کے
 
بعنوان سلام و منقبت، نوحہ، غزل صائب
لگے ہیں فیس بک پر جا بجا انبار چوری کے
 
 
صائب جعفری
Aug 02,2021 2:51 AM 
قم ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:12
ابو محمد

 

*موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی قم* میں ہفتہ وحدت کے عنوان سے منعقدہ محفل میں پیش.کئے گئے اشعار

برائے دین نبی کھل چکا تھا سرخ کفن
سرائے دہر میں ابلیسیت تھی خیمہ زن

تمام ہونے کو تھی لَو چراغ وحدت کی
خزاں کی نذر ہوا تھا شہادتوں کا چمن

نفاق و کفر سے سازش ہوئی تو کرنے لگی
ہوائے نفس بھی پیدا فضائے دیں میں گھٹن

دیارِ عشق میں حرص و ہوس کا موسم تھا
لگا ہوا تھا وفاوں کا آفتاب گہن

نوائے عشق پہ غالب تھے ساز ہائے طرب
لگائی شرک نے آواز حق پہ تھی قدغن

اٹھا پھر ایسے میں اک پیر مرد ابنِ بتول
نحیف زار بظاہر، تھا اصل میں آہن

لرزرہے تھے صنم خانہِ جہاں کے رکن
بتوں کے دیس میں اک بت شکن تھا جلوہ فگن

یہ جانتا تھا وہ توحید آشنا غازی
کہ کائنات ، درونِ بشر کو ہے درپن

وہ ماورائے طبیعت سے کھینچ لایا مدد
تھے شش جہاتِ جہاں جب بنے ہوئے دشمن

علی کے عشق میں مالک کی مثل ہر لحظہ
مثالِ آئینہ اعمال تھے برائے سخن

صد آفرین خمینی بفیض مصحفِ حق
شکست دے گئی   ہر شیطنت کو تیری لگن

یہ سِر بھی کردیا عالم پہ روز سا روشن
علی کے نام سے ہوتی ہے سہل کیسے کھٹن

ترے تفکر حق سے جہاں ہوا بیدار
اسی سے سینہ باطل کی بڑھ رہی ہے گھٹن

ہر ایک دشمن حق سے مقابلے کے لئے
جہاں پسند ہوا ہے تمہارا چال چلن

ترا عمل سے مسلمان ہوگئے بیدار
ترے طفیل ہی راہ جہاد ہے روشن

بنایا وحدت امت کو تو نے اپنا شعار
کہ اب لباس پہ اسلام کے پڑے نہ شکن

یہ انقلاب ہے تیرے ہنر کا ایک نشاں
جنجھوڑ ڈالا ہے جس نے ہرایک خفتہ تن

صائب جعفری
قم المقدس
۲۱ اکتوبر ۲۰۲۱

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 October 21 ، 22:04
ابو محمد

میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا

وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا

ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے

ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا

ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن

یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا

نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین

مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا

زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی

ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 May 20 ، 22:44
ابو محمد

 

عرفہ ہے عبادات کی توقیر کا دن ہے

انسان کے کردار کی تعمیر کا دن ہے

جوبن پہ ہےزُخَّارِ کرامات الٰہی

یہ خاک کا اکسیر میں تغییر کا دن ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 April 19 ، 12:04
ابو محمد

عید الاضحیٰ

دینے پیغامِ محبت شمس ابھرا عید کا

ہو مبارک سب کو دن اک اور آیا عید کا

ایک دوجے کے گلے لگ جاو نفرت چھوڑ کر

یوں مناو مل کے خوشیاں ہے زمانہ عید کا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 April 19 ، 12:00
ابو محمد


جب ہند کے بت خانے میں اسلام تھا محبوس

ہوتی نہ تھی تشریک مسلمانوں کو محسوس

اسلام سے عاری تھے  مسلمانوں کے افکار

افرنگ کے پھندوں میں سیاست تھی گرفتار

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 15 April 19 ، 17:32
ابو محمد

بیدار شو.......

ازقلم صائب جعفری

 

بھلا کہاں تک یہ خواب غفلت بھلا کہاں تک بلا کی نفرت 
زمانے کی کروٹوں نے انساں سے چھین لی آبر و  و عظمت 
 
اب آنکھیں کھولو یہ آمریت نہیں فقط دشمنِ مسلماں 
تباہ کاری ہے اس کا مقصد، ہدف ہے اس کا ہر ایک انساں 
 
زمین کا ہو کوئی بھی خطہ نہیں ہے محفوظ آج شر سے 
عجب ہے عالم کہ آج انساں جو ہنس رہا ہے تو وہ بھی ڈر سے 
 
لہو، رگِ تاک سے بجائے، شراب رسنے لگا ہے دیکھو 
سرودِ بلبل بجائے نغمہ ، صدائے نوحہ ، ہوا ہے دیکھو 
 
تمام عالم کہر زدہ ہے، فضا پہ بارود کی گھٹا ہے 
زمیں کا سینہ تپاں تپاں ہے سمندر آتش اگل رہا ہے 
 
جہانِ زر میں گنوا چکی ہے اب آدمیت ہر ایک ارزش 
گھسیٹ لی مفلسی نے چادر اتار لی ہے تنوں سے پوشش 
 
کبھی یہ سوچا کتاب بچوں سے چھیننا  کیا یہ مرحلہ ہے 
قلم کی جا نوجواں کے ہاتھوں میں دے دیا کس نے اسلحہ ہے 
 
زمیں پہ تخریب میں ہے مصروف کون دشمن کبھی یہ سوچا 
جہاں کی تعمیر پر لگادی ہے کس نے قدغن کبھی یہ سوچا 
 
یہ داعش القاعدہ وہابی، یہ ناصبی غالیوں کے لشکر
سبھی کے امریکہ اور برطانیہ یہودی ہوئے ہیں لیڈر
 
یہودیت اصلِ بر بریت، یہودیت اصلِ قتل و غارت 
ہے قلبِ انسانیت میں خنجر، یہودیت دشمنِ شرافت 
 
سروں کو انسانیت کے پیروں سے اپنے ہر دم کچل رہے ہیں 
بنے ہیں گلچیں چمن میں آکر، کلی کلی کو مسل رہے ہیں 
 
سعودیوں سے ملاپ کرکے، شعورِ وحدت ہلاک کرکے 
ہمیشہ ان کو خوشی ملی ہے غلافِ کعبہ کو چاک کر کے 
 
سروں پہ بچوں کے مدرسوں کی چھتوں کو ڈھاتے ہیں یہ ستمگر 
اجاڑ کر بستیوں کو شہرِ خموشاں کر دیتے ہیں سراسر 
 
سسکتے بچے، سہاگ اجڑے، تڑپتی بہنیں، اداس بھائی 
جوان لتھڑے ہیں خاک و خوں میں لٹی ہے ماں باپ کی کمائی 
 
کہیں پہ ہیں چھیتڑے بدن کیے، کہیں بدن چھیتڑے کو ترسے 
کہیں لہو کا ہے قحط جاری کہیں پہ باران خوں کی برسے 
کہیں پہ زکزاکی خون میں تر ہوا پئے عظمتِ بشر ہے 
 
کہیں پہ سولی کی زیب میثم کی مثل باقر سا با اثر ہے 
 
یہ عصرِ حاضر کی کربلا ہے خیامِ امن و اماں جلے ہیں 
مگر اسی راکھ میں نہاں انقلابِ عالم کے سلسلے ہیں 
 
وہ انقلابات جن سے لرزاں فرنگیوں کا رواں رواں ہے 
وہ انقلابات جن کی تہہ میں عروجِ انسانیت نہاں ہے 
 
وہ انقلابات  جن سے ظلم و ستم کی ہستی خزاں رسیدہ 
وہ انقلابات جن سے علم و عمل کے گلشن بہار دیدہ 
 
وہ انقلابات جو شہیدوں کے خون کی آبرو رہیں گے 
وہ انقلابات  جن سے دشت و جبل بہشتِ بریں بنیں گے 
 
بتا رہی ہے ہوائے دوراں نصیب کھلنے کو ہے بشر کا 
گذر گئیں ہجر کی شبیں ہے زمانہ اب وصل کی سحر کا 
 
افق سے اٹھے گا پردہِ شب اجالے ظلمت کو کاٹ دیں گے 
شعاعِ مہرِ وفا کے جگنو، زمیں کے گلشن کو پاٹ دیں گے 
 
اٹھو، شہیدوں کی خاکِ تربت بھی طالب رزم  بن گئی ہے
بڑھو، کہ تقدیم کو تمہاری فرشتوں کی صف سجی ہوئی ہے 
 
جہاں سے باطل کے نام کو اب مٹا دو با قوتِ الٰہی 
ہر اک برائی کی جڑ زمیں سے اکھاڑ پھینکو بفیضِ باری 
 
ضعیف بن کر رہے تو دنیا جہاں سے تم کو نکال دے گی 
ہوس کی زنجیر میں جکڑ کر عبث بکھیڑوں میں ڈال دے گی 
 
بقولِ اقبال گر ہو تہران عالمِ شرق کا جنیوا 
یقیناً اس کرہِ زمیں پر شرف بلند آدمی کا ہوگا 
 
ضرورت اس امر کی ہے صائب کہ رہبری کو بنا لیں رہبر 
جو نائبِ حجتِ خدا ہے اسی کے قدموں پہ رکھ دیں اب سر
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 February 19 ، 12:48
ابو محمد