خون میں تر بتر ہوگئی کربلا(نوحہ)
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
رن میں اکبر گرا جس گھڑی خاک پر
اور صدا دی چلا میں سلام اے پدر
شہ کی آنکھوں سے نورِ بصر چھن گیا
ساتھ تیرے ہی بینائی رخصت ہوئی
جانتا ہے خدا میری طاقت گئی
کیسے لے جاوں خیمے میں لاشہ ترا
چل گئی گردنِ شاہِ دیں پر چھری
در پہ خیمے کے غش کھا کے زینب گری
پنجتن کا ہوا دشت میں خاتمہ
چھن گئیں چادریں جل گئے سب خیام
سہمے بچے ہیں اور بنتِ خیر الانام
دے رہے ہیں سبھی تم کو غازی صدا
دشمنی کیسی ہے آلِ اطہار سے
کھینچا بستر کو ہئے پشتِ بیمار سے
قتل سجاد کو کر نہ دیں اشقیا
طوق و زنجیر میں جکڑا بیمار ہے
اُس لٹے قافلے کا یہ سالار ہے
جس کا سالار تھا ابنِ مشکل کشا
تم تو مقتل میں سوتے ہو اصغر مرے
یہ بتاو کہ ماں کس طرح اب جئے
تیرا جھولا بھی اے مہ لقا جل گیا
چھینے گوہر طمانچے لگائے گئے
گھڑکیاں اب سکینہ کہاں تک سہے
لوٹ کر اب تو دریا سے آو چچا
گر ملیں بابا کہنا یہ اے عموں جاں
آپ کا سینہ پائے سکینہ کہاں
خاک پر سووں کیسے بتاو ذرا
دشت میں بنتِ زہرا ہیں گریہ کناں
کھو گئی ہے سکینہ اے غازی کہاں
کچھ بھتیجی کا اپنی بتادو پتا
پہنچی بھائی کے مقتل منیں جس دم بہن
لاشِ بے سر نے صائب کیا یہ سخن
سونے دے نہ سکینہ کو زینب جگا
۱۰ اکتوبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ