نسیم جانفزا صحن حرم میں یہ پکار آئی(منقبت)
نسیمِ جانفراء صحنِ حرم میں یہ پکار آئی
خدا کا شکر گلزارِ مودت میں بہار آئی
کھلا ہے غنچہِ بنتِ نبی نرجس کے آنگن میں
ہوئے مدہوش قدسی بھی جو بوئے گل عذار آئی
جبیں کے ساتھ دل کرنے لگا معبود کو سجدے
تری دہلیز پیشانئِ عاشق کو سنوار آئی
صدائے یا ابا صالح لبوں پر بار بار آ کر
دلِ سردابِ الفت پر تری تصویر ابھار آئی
ہر اک گرداب نے بخشا یقیں تیری نظارت کا
ہر اک آندھی بڑھانے تجھ پہ میرا اعتبار آئی
چراغِ جاں لئے ہاتھوں پہ شب کے گھپ اندھیرے میں
پئے دیدار جاناں روحِ عاشق بے قرار آئی
نہ کیوں اب ہو نصیب چشمِ رنداں شربتِ دیدار
تمنائے وصالِ یار شامِ غم گذار آئی
تمہارے عشق نے ثابت قدم ہر موڑ پر رکھا
اگرچہ راہ میں قیدِ سلاسل آئی دار آئی
تعقل سے، توسل سے، توکل سے رہو مربوط
وہ دیکھو پردہِ غیبت الٹ کر ذوالفقار آئی
خدا بھی ہو گیا صائب سے راضی اور محمد بھی
تری نظرِ کرم بیکس کی ہستی یوں سنوار آئی
۱۴ شعبان ۱۴۳۸