کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۸ مطلب در جولای ۲۰۲۱ ثبت شده است

قم مقدس میں کھرمنگ بلتستان کے طلاب کی ادبی انجمن کے زیر اہتمام طرحی منقبتی مشاعرہ میں پیش کئے گئے اشعار احباب کی نذر

*قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا*


فیضان کردگار ہے جلوہ غدیر کا
منشور کائنات ہے قصہ غدیر کا

میدان حشر حشر سے پہلے دکھا دیا
پاکر رسول حق نے اشارہ غدیر کا

آیات کی زبان میں جبریل جھوم کر
سب کو سنا رہے ہیں ترانہ غدیر کا

بلغ کی صوت ہے کبھی اکملت کی صدا
*"قرآن پڑھ رہا ہے قصیدہ غدیر کا"*

بہر علی غدیر میں حکم رسول پر
منبر بنا رہے ہیں صحابہ غدیر کا

کرب و بلا کے دشت میں شبیر کے طفیل
لکھا گیا ہے خوں سے صحیفہ غدیر کا

بعد نبی جہاں میں مسلماں نہ ہوتے خوار
اے کاش حفظ کرتے جو خطبہ غدیر کا

وسعت خدا ہی جانے علی کی حیات کی
صدیوں پہ تو ہے چھایا شبینہ غدیر کا

ایمان اور نفاق کو کرتی ہے یہ جدا
یہ بھی ہے اک عجیب سلیقہ غدیر کا

کیونکر وہ سوئے حضرت حق ہوگا گامزن
جو کاروں چنے گا نہ رستہ غدیر کا

میثم کی.طرح سولی مقدر ہے اس لئے
افکار پر ہمارے ہے سایہ غدیر کا

گرداب سے سقیفہ کے وہ لوگ بچ گئے
جن کو ہوا نصیب سفینہ غدیر کا

ہر ایک ورد کی مجھے لذت ہوئی نصیب
ورد زباں ہوا جو وظیفہ غدیر کا

وہ خواہشات دہر سے صائب ہے بے نیاز
جس کو میسر آئے خزانہ غدیر کا

صائب جعفری
۲۹ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 30 July 21 ، 02:54
ابو محمد

حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر

معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*

ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں

بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں

یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں

برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں

یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں

طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*

غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں

جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں

علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں

گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں

ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں

صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں

علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں

جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں

زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں

۲۸ جولائی ۲۰۲۱

۱ نظر موافقین ۲ مخالفین ۰ 29 July 21 ، 01:25
ابو محمد

بزم استعارہ کی آج مورخہ ۲۲ جولائی ۲۰۲۱ کی شعری و تنقیدی نشست میں فی البدیہہ اشعار کہنے کے لئے مصرع طرح *زندگی وقف ہے برائے غدیر* دیا گیا اس پر جو اشعار مقررہ وقت میں موزوں ہوئے پیش خدمت ہیں

سر پہ بیٹھا ہے جب ہمائے غدیر
کیوں نہ دیوان ہو صدائے غدیر

خلد و.کوثر کی آبرو کے لئے
استعارہ بنی ہوائے غدیر

پیاس دیکھی مری تو رب.نے لکھی
میری قسمت میں آبنائے غدیر

بیچ دوں کائنات کے بدلے
اتنی سستی نہیں ولائے غدیر

مرحبا کہہ اٹھی شراب الست
جب ملے دل کو جام ہائے غدیر

یہ انا الحق کی جاں گداز غزل
عرش اعظم پہ گنگنائے غدیر

کربلا سے ملیں ہیں سانسیں تو
زندگی وقف ہے برائے غدیر

یہ بھی پہچان ہے ملنگوں کی
کچھ نہیں ان.کا اک سوائے غدیر

بس وہی دل ہے قلب قرآنی
جاگزیں جس میں ہے نوائے غدیر

سوچتا ہوں کہاں گذرتی رات
رہ میں ہوتی نہ گر سرائے غدیر

چور اچکوں سے ہوگیا محفوظ
دین حق اوڑھ کر ردائے غدیر

عقل کہتی ہے جان لیوا ہے
عشق کہتا ہے کر ثنائے غدیر

بہر وحدت سیئے ہوں لب لیکن
میرے جذبات گدگدائے غدیر

ہر خوشی ہے فدائے کرب و بلا
اور غم سب کے سب فدائے غدیر

اے خدا صائب حزیں کو.دکھا
دست مہدی میں اب لوائے غدیر
صائب جعفری
۲۲ جولائی ۲۰۲۱

نوٹ: مقطع سے پہلے کے تین اشعار مقررہ وقت کے بعد کے ہیں جو.محفل سے گھر آکر لکھے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 July 21 ، 23:12
ابو محمد

انجمن ادبی اقبال لاہوری کی جانب سے  پندرہ روزہ طرحی شعری نشست بعنوان "مشق سخن" محترم احمد شہریار صاحب کی زیر سرپرستی قم ایران میں منعقد ہوتی ہے اس بار مصرع طرح:  "تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں" تھا جس.پر خاکسار نے بھی کچھ اشعار موزوں کئے وہ احباب کی.نذر کرتا ہوں.

دنیا سمجھ رہی ہے کہ دھوکا ملا ہمیں
صد شکر کہ حسین.کا سودا ملا ہمیں

ڈوبے ہیں انبساط کی چاہت میں زر پرست
اور ہم.ہیں خوش حسین پہ رونا ملا ہمیں

آسان منزلیں ہوئیں غیب و شہود کی
نام علی سے جونہی سہارا ملا ہمیں

اخلاص کی مثال جو ہم.ڈھونڈنے چلے
تو فاطمہ کے لعل کا سجدہ ملا ہمیں

علم و عمل کے سائے میں عرفان کردگار
کرب و بلا کے دشت میں.یکجا ملا ہمیں

بیچا ہے عشق شاہ کے بدلے میں.نفس کو
بس اس معاملے.میں نہ گھاٹا ملا ہمیں

پیاسے بھٹک رہے تھے سرابوں کے درمیاں
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"

خون حسین نے کیا سیراب اس طرح
پھر کربلا میں کوئی نہ پیاسا ملا ہمیں

مانگی بہار خلد تو از جانب خدا
عباس کے علم کا پھریرا ملا ہمیں

رومال فاطمہ کی ہیں زینت ہمارے اشک
کیسا گراں.بہا یہ اثاثہ ملا ہمیں

غازی کو آتا دیکھ کے کہنے لگے عدو
کاندھوں اپنے اپنا جنازہ ملا ہمیں

دنیا کے درد و غم سے رہائی کے واسطے
لبیک یاحسین وظیفہ ملا ہمیں

فرش عزا پہ آؤ تو خود جان جاؤ گے
کیسے خدا کی خلد کا رستہ ملا ہمیں

اللہ نبی علی و جناں حریت وفا
اک کربلا سے دیکھئے کیا کیا ملا ہمیں

دل کو طواف حج کی سعادت بھی مل گئی
جب نقش پا میں آپ کے کعبہ ملا ہمیں

صائب فقط فرات کا ساحل ہے وہ جہاں
شمس و قمر کا نور اکھٹا ملا ہمیں

صائب جعفری
۱۸ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 19 July 21 ، 02:49
ابو محمد

جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار

مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے


عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون

خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
 میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون

خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون

آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون

تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون

بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون

حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون

 راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون

ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون

جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون

۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 July 21 ، 01:01
ابو محمد

۱. رقیب کرکے مدارات خوش نہیں ہونگے
برے ہوں اچھے ہوں حالات خوش نہیں ہونگے

۲. مرے بغیر تو خوش ہیں تمام لوگ مگر
مجھے خبر ہے مرے ساتھ خوش نہیں ہونگے

۳. بتا دے کون سا اعزاز مرے پاس نہیں
مگر یہ لوگ مرے ہاتھ خوش نہیں ہونگے

۴. میں ہاتھ لگ گیا ان کے تو شوق کی خاطر
نکال لیں گے وہ جذبات خوش نہیں ہونگے

۵.بہت سے جھوم اٹھیں گے ہماری غزلوں پر
مگر یہ ذات کے بد ذات خوش نہیں ہونگے

۶.یہ ہند فطرت و قصاب طینت اے وائے
کلیجہ کھائیں گے دن رات، خوش نہیں ہونگے

۷. اناڑیوں کا بنا ہوں حریف جانتا ہوں
یہ مات کھائیں یا دیں مات خوش نہیں ہونگے

۸.رہے یہ دل کی جو دل میں بہت ہی اچھا ہے
کہ آپ کرکے ملاقات خوش نہیں ہونگے

۹.بہار رت سے ہیں نالاں مرے چمن کے گلاب
بلا کی برسی جو برسات خوش نہیں ہونگے

۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 July 21 ، 00:50
ابو محمد

بزم استعارہ کی آج کی ہفتہ وار نشست میں پیش کی گئی تازہ غزل


ایسا ہوا تھا اک بار احساس
میرا نہیں تجھ کو یار احساس

میرا یقیں ہے اب بھی نہیں ہے
زر کے جہاں میں بے کار احساس

تیرے لئے تھے تیرے لئے ہیں
عزت، محبت، اشعار، احساس

پھر آج جیسا شاید نہ ہوگا
حساسیت سے دوچار احساس

آنکھوں کے حلقے خود کہہ رہے ہیں
ہے ذہن پر تیرے بار احساس

لیکن تمہیں شرم آتی نہیں ہے
کرنے لگے اب اغیار احساس

کیا کیا گذرتی ہے گل پہ لیکن
ذرہ نہیں کرتا خار احساس

سجدہ بہر صورت لازمی ہے
گرچہ نہیں اب دیں دار احساس

پینا نہیں تو بھرتے ہیں کیوں جام
کرتے نہیں کچھ مے خوار احساس

اس وقت تک مٹ جاتا ہے سب کچھ
ڈستا ہے بن کر جب مار احساس

بولی لگاؤ کوئی کھری سی
میں بیچتا ہوں بیدار احساس

اچھی ہیں سب کی فن کاریاں پر
صائب ہے تیرا شہکار احساس

صائب جعفری
۸ جولائی ۲۰۲۱
قم المقدس

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 09 July 21 ، 00:35
ابو محمد

 

مورخہ تین فروری ۲۰۲۱ کو برادر ہادی ولایتی کی رہائش گاہ پر ایک طرحی محفل سننے کے لئے پہنچا تو برادر عزیز مصر ہوگئے کہ آپ کو کلام پڑھنا ہے مصرع طرح قائم امروہوی صاحب کی.منقبت سے لیا گیا تھا سو کوئی ۵ سے ۷ منٹ میں یہ ۵ شعر موزوں ہوئے اور یہی پڑھ دیئے شاید ان کو فی البدیہہ کہہ سکتے ہیں

چاہئے بس مرضی معبود اکبر فاطمہ
لکھ رہا ہوں منقبت تیری برابر فاطمہ

انعکاس قوت خالق علی کی ذات ہے
عفت و عصمت کے آئینے کا جوہر فاطمہ

ہیں ترے دریوزہ گر کروبیاں ارض و سما
یعنی تو بھی ہے غنا میں رب کا مظہر فاطمہ

لحن.خالق میں قصیدہ آپ کا کہتے ہوئے
آیتیں اتریں ہیں اکثر آپ کے گھر فاطمہ

آپ کا صائب شفاعت اور شفا کے واسطے
اٹھ کے جائے آپ کے در سے کہاں پر فاطمہ

۳ فروری ۲۰۲۱

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 July 21 ، 16:50
ابو محمد