کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا


نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے

مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے

میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر

کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے

میں آیا تھا جہاں سے وہ عدم تھا

یا جانا ہے جہاں  پر وہ عدم ہے

فراق و وصل ہیں باہم جہاں میں

نہ جاے ہے جہنم یا ارم ہے

نہیں ہے خوف لٹ جانے کا کوئی

میرا سرمایہ میرا درد و غم ہے

اثر لیتا نہیں باتوں  کا میری

عجب انداز کا میرا صنم ہے

خفا کیوں مجھ سے ہے عالم کا عالم

مرے ہاتھوں میں تو بس اک قلم ہے

ہر اک کا غم چھپا رکھا ہے اس میں

یہ میرا دل ہے یا کوہِ الم ہے

نہ ملنے آئیں گے اب ہم کبھی بھی

یہ کیسی آپ نے کھائی قسم ہے

مری تقدیر کی ساری خرابی

تمہاری زلف کا بس ایک خم ہے

ہنسا دیتے ہیں ان کو میرے آنسو

خوشی کے واسطے کیا بات کم ہے

عجب ہے حسرتِ دیدا صائب

سمٹ کر آگیا آنکھوں میں دم ہے

۱۱ مئی ۲۰۱۲ کراچی مفاعیلن مفاعیلن فعولن


موافقین ۱ مخالفین ۰ 19/05/22
ابو محمد

saieb ghazal

صائب غزل

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی