نہ پاؤں اب بھی منزل تو ستم ہے(غزل)
Wednesday, 22 May 2019، 02:16 AM
نہ پاوں اب بھی منزل تو ستم ہے
مرے قدموں سے منزل دو قدم ہے
میں خود پوچھتا رہتا ہوں اکثر
کتابِ دل میں آخر کیا رقم ہے
میں آیا تھا جہاں سے وہ عدم تھا
یا جانا ہے جہاں پر وہ عدم ہے
فراق و وصل ہیں باہم جہاں میں
نہ جاے ہے جہنم یا ارم ہے
نہیں ہے خوف لٹ جانے کا کوئی
میرا سرمایہ میرا درد و غم ہے
اثر لیتا نہیں باتوں کا میری
عجب انداز کا میرا صنم ہے
خفا کیوں مجھ سے ہے عالم کا عالم
مرے ہاتھوں میں تو بس اک قلم ہے
ہر اک کا غم چھپا رکھا ہے اس میں
یہ میرا دل ہے یا کوہِ الم ہے
نہ ملنے آئیں گے اب ہم کبھی بھی
یہ کیسی آپ نے کھائی قسم ہے
مری تقدیر کی ساری خرابی
تمہاری زلف کا بس ایک خم ہے
ہنسا دیتے ہیں ان کو میرے آنسو
خوشی کے واسطے کیا بات کم ہے
عجب ہے حسرتِ دیدا صائب
سمٹ کر آگیا آنکھوں میں دم ہے
۱۱ مئی ۲۰۱۲ کراچی مفاعیلن مفاعیلن فعولن
19/05/22