تو ہے جاں سے قریں تو پھر کیونکر
کاسہ دل لئے پھروں در در
دم بدم موت کھا رہی ہے مجھے
دم بدم ہو رہا ھوً زندہ تر
لا مکاں سے عجب ہے یہ نسبت
میں مکاں مند ہوں مگر بے گھر
خود ہی منزل ہوں خود مسافر ہوں
مجھ کو در پیش ہے اک ایسا سفر
ہیں عذاب و ثواب سب کے سب
حاصل اختیار نوع بشر
آپ کو پاکے ملتفت مرا دل
ہو کے عالم کا ہوگیا خو گر
آسماں تک رہا ہے حسرت سے
لگ گئے جب سے مجھ کو عشق کے پر
یہ جو مجھ میں انا کا ہے عنصر
ظاہرا یہ بھی ہے ترا ہی اثر
فتوئے کفر کو کہے تمغہ
ایک عاشق سوا ہے کسکا جگر
شہر دل کے لئے شب یلدا
ہے اماوس کی رات کا منظر
مجھ کو معلوم ہی نہ تھا صائب
تو ازل سے ہے مجھ میں جلوہ گر
،Dec 24,2021
12:37 AM