کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۱۰ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «saieb jafri naat manqabaat» ثبت شده است

ہے بجا کہ ظل خالق ہے وجاہت محمد
تو دیار کن ہے جلوہ پئے فطرت محمد

ہے سبب تمام عالم کا وجود مصطفیٰ پر
نہیں کبریا سے ہٹ کر کوئی علت محمد

یہ خدا کا فیض ہم.تک جو پہنچ رہا ہے ہر دم
تو یقین جانئے ہے بوساطت محمد

نہ.ہوں عاشق اور معشوق جدا جدا جہاں پر
وہی رنگ ہے خدا کا وہ ہے صبغت محمد

نہ.سمجھ سکے مدینہ.کے وہ.شیخ.و.شاب حد ہے
کہ یہ بضعۃ محمد ہے بضاعت محمد

یہ حدیث کلناسے ہے مری سمجھ میں آیا
کہ چہار دہ نظاروں میں ہے وحدت محمد

سر عرش دو کمانوں سے بھی کم.کے فاصلے پر
یہ کھلا علی مکمل ہے حقیقت محمد


جو انہیں سمجھ رہا ہے بشر اپنے جیسا دیکھے
ذرا آئینے میں اسریٰ کہ وہ صورت محمد

جو خدا کو ڈھونڈتے ہو تو ادھر ادھر نہ بھٹکو
تمہیں رب ملے گا لیکن بروایت محمد

تھا بروز فتح مکہ یہ بتا دیا جہاں کو
کہ سخاوت و معافی ہے طریقت محمد

کرے کیا بیان انساں کوئی نعت مصطفی کی
کہاں عقل کی تناہی کہاں وسعت محمد

یہاں آئیں گے فرشتے یہاں آئیں گے علی بھی
مرے لب پہ آنے دیجے ابھی مدحت محمد

ترا شکریہ خدایا مرے دل.کو پا کے تنہا
اسے تو نے کر دیا جائے سکونت محمد

یہ ہے کربلا کا میداں یہاں آپ کو ملے گی
کہیں سیرت محمد کہیں صورت محمد

اسے مسجد اور محراب میں کیجئے نہ.محدود
رہ حق میں کھانا پتھر بھی ہے سیرت محمد

تھا سوال کس سے سیکھی ہے یہ حق بیانی تو نے
تو زباں پہ میری جاری ہوا حضرت محمد

مری فکر نے جو.پایا انہیں راز دان اپنا
تو ملا نیا یہ مطلع پئے خدمت محمد


بھلا اس سے بڑھ کے ہوگی کوئی غربت محمد
کہ سبک ہوئی جہاں میں ہے شریعت محمد

یہ اگر نہیں تقمص تو بتا دے اور کیا ہے
تو نے.کھینچ تان پہنی ہے جو خلعت محمد


تجھے کیسے طالب علم میں مان لوں بتادے
تو عمل سے کر رہا ہے جو مذمت محمد

یہی ہوگا میرا تمغہ جو میں کہہ سکوں یہ صائب
"سر دار لے چلی ہے مجھے الفت محمد"

صائب جعفری 
قم ایران
Feb 28,2022 
7:50 PM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 March 22 ، 19:38
ابو محمد

حسینیہ امام صادق علیہ السلام میں منعقدہ طرحی محفل مقاصدہ بسلسلہ جشن.میکاد صادقین علیہما السلام کے لئے لکھا گیا گیا طرحی کلام.....

ہستی کے گلستاں میں جو دم دیکھ رہے ہیں
سب آپ کے الطاف بہم دیکھ رہے ہیں

ہیں واسطہ در فیض حقیقت میں محمد
ہر ذرہ پہ یوں ان کا کرم دیکھ رہے ہیں

کرنی ہے انہیں ثبت جو تقدیر دو عالم
احمد کی طرف لوح و قلم دیکھ رہے ہیں

آدم ہیں در سید لولاک پہ خوش باش
جبریل کھڑے باغ ارم دیکھ رہے ہیں

عالم ہے سبھی کھوج میں جنت کی پہ عشاق
جنت کو ترا نقش قدم دیکھ رہے ہیں

مصباح کی مشکات و زجاجہ کی ہے تفسیر
اک شیشے میں دو نور بہم دیکھ رہے ہیں

دنیا کے مقر منکر سرکار یہ بد عقل
وجدان کو فقدان میں ضم دیکھ رہے ہیں

ق
اے امی لقب تیری فصاحت کے گلستان
حیرت سے عرب اور عجم دیکھ رہے ہیں

قرآن کے انداز میں حیدر کے بیاں میں 
سب تیری بلاغت کا بھرم دیکھ رہے ہیں

یہ انفس آفاق حقیقت کی نگہ سے
جعفر میں محمد کا حشم دیکھ رہے ہیں

دریائے حوادث کے تھپڑے ہیں فراواں
یہ عشق محمد ہے جو کم دیکھ رہے ہیں

اے گردش دوراں نہ ستا جان لے اتنا
ہم.لوگ ابھی سوئے حرم.دیکھ رہے ہیں

آنکھوں سے رواں اشک ہیں خاموش زباں ہے
یعنی کہ.مجھے شاہ امم دیکھ رہے ہیں

ہر جلوۂ بے پردہ کے پردے میں وہ موجود 
ہم اندھے ہیں غائب انہیں ہم دیکھ رہے ہیں

وہ کہتے ہیں اخلاص سے انجام دو اعمال
دنیا کی نہ پروا کرو ہم دیکھ رہے ہیں

دل کہتا ہے روضہ سے بقیعہ کو مسلسل
سرکار کئے چشم کو نم دیکھ رہے ہیں

صائب یہ عرق ریزی جعفر کا اثر ہے
کردار محمد جو علم دیکھ رہے ہیں

صائب جعفری
قم مقدس
۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۳

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 27 October 21 ، 11:39
ابو محمد

بزم استعارہ کی آج مورخہ ۲۲ جولائی ۲۰۲۱ کی شعری و تنقیدی نشست میں فی البدیہہ اشعار کہنے کے لئے مصرع طرح *زندگی وقف ہے برائے غدیر* دیا گیا اس پر جو اشعار مقررہ وقت میں موزوں ہوئے پیش خدمت ہیں

سر پہ بیٹھا ہے جب ہمائے غدیر
کیوں نہ دیوان ہو صدائے غدیر

خلد و.کوثر کی آبرو کے لئے
استعارہ بنی ہوائے غدیر

پیاس دیکھی مری تو رب.نے لکھی
میری قسمت میں آبنائے غدیر

بیچ دوں کائنات کے بدلے
اتنی سستی نہیں ولائے غدیر

مرحبا کہہ اٹھی شراب الست
جب ملے دل کو جام ہائے غدیر

یہ انا الحق کی جاں گداز غزل
عرش اعظم پہ گنگنائے غدیر

کربلا سے ملیں ہیں سانسیں تو
زندگی وقف ہے برائے غدیر

یہ بھی پہچان ہے ملنگوں کی
کچھ نہیں ان.کا اک سوائے غدیر

بس وہی دل ہے قلب قرآنی
جاگزیں جس میں ہے نوائے غدیر

سوچتا ہوں کہاں گذرتی رات
رہ میں ہوتی نہ گر سرائے غدیر

چور اچکوں سے ہوگیا محفوظ
دین حق اوڑھ کر ردائے غدیر

عقل کہتی ہے جان لیوا ہے
عشق کہتا ہے کر ثنائے غدیر

بہر وحدت سیئے ہوں لب لیکن
میرے جذبات گدگدائے غدیر

ہر خوشی ہے فدائے کرب و بلا
اور غم سب کے سب فدائے غدیر

اے خدا صائب حزیں کو.دکھا
دست مہدی میں اب لوائے غدیر
صائب جعفری
۲۲ جولائی ۲۰۲۱

نوٹ: مقطع سے پہلے کے تین اشعار مقررہ وقت کے بعد کے ہیں جو.محفل سے گھر آکر لکھے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 July 21 ، 23:12
ابو محمد

1. اگر کرب و بلا کی معرفت تقدیر ہوجائے
ہر اک غم کے لئے اشک عزا اکسیر ہوجائے

2. اگر اخلاص ہو تجھ میں تو اے شبیر کے شاعر
قلم شمشیر بن جائے قلم شمشیر ہوجائے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 05 April 21 ، 00:09
ابو محمد

کراچی میں اردو کے کئی ایک.لہجے ہیں انہی میں سے ایک.لہجے میں منقبت کے اشعار پیش خدمت ہیں

نعلت کی رسی اس کی گردن میں ڈال دی ہِے
یونہی تو ماویہ سے صلحا نہیں کری ہِے
لگتا ہے ماویہ کی مَییَا مری پڑی ہِے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 May 20 ، 00:49
ابو محمد

 طرحی ردیف   "سے بہتر " 

کوئی ادراک لے آ تو مرے ادراک سے بہتر

کہ دنیا میں نہیں کوئی شہِ لولاک سے بہتر

لباسِ فقر ہے فخرِ محمد،  جاننے کے بعد

نہ بھائی قلب کو پوشاک اس پوشاک سے بہتر

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 21 April 19 ، 12:13
ابو محمد


کُھل رہا ہے دنیا پر مَہر ِ نور کا در بِھی

وجد میں ہے خالق کے مِہر کا سمندر بھی

مل رہا ہے عالم کو مژدہِ حیاتِ نو

اور قدرتِ حق کا سج رہا ہے محضر بھی

یہ پیام آزادی دیتی ہے غلاموں کو

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 April 19 ، 01:26
ابو محمد


خدا کی معرفت جب حیدرِ صفدر سے ملتی ہے

تو  پھر توفیقِ عشقِ مرتضیٰ داور سے ملتی ہے

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 03 March 19 ، 00:28
ابو محمد

مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار


.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا

جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا


بے ولائے علی نبی کی ثنا

شُکْر  میں ایسا بے وفا نہ ہوا


سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی

مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 17 February 19 ، 20:44
ابو محمد

سلیقہ ایک ہی جیسا محمد اور جعفر کا

قرینہ ایک ہی ابھرا محمد اور جعفر کا

ہے ریشہ ایک ہی حقا محمد اور جعفر کا


نہیں فرق اک نہیں ابن محمد اور محمد میں

شمائل میں خصائل میں فضائل اور ابجد میں

نتیجہ ایک ہی نکلا محمد اور جعفر کا

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 16 January 19 ، 14:40
ابو محمد