کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «ghazal» ثبت شده است

عشق کا رنگ رنگ لائے گا
خون خنجر کو مات دے دے گا
 
دور بارود کے وفور کا ہے
اب کھلونوں سے کون بہلے گا
 
ایک پتھر ہے ایک شیشہ ہے
دیکھئے کون کس کو توڑے گا
 
روشنی سے لڑا ہے پروانہ
کیا اندھیرا اسے نگل لے گا
 
وہ یہ سمجھا تھا میں رکوں گا نہیں
میں یہ سمجھا تھا وہ پکارے گا
ق
واعظا چٹکلے نہ چھوڑا کر
کون وعدوں پہ مے کو چھوڑے گا
بس میں ہے تو بیاں حقیقت کر
ان سرابوں سے کون بہکے گا
 
کوئی پتھر ہو کوئی ہیرا ہو
جوہری تو سبھی کو پرکھے گا
 
بال پر پھوٹنے لگیں گے جب
شوق پرواز دل میں ابھرے گا
 
یہ زمیں آسماں نہیں ہونگے
جب وہ رخ سے نقاب الٹے گا
 
وصل کی شب میں خواب سونے کا
شاید احمق ہی کوئی دیکھے گا
 
وہ کرے بات اور میں نہ.سنوں
صائب ایسا تو وہ نہ چاہے گا
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ایران
Dec 02,2022 
2:07 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:37
ابو محمد

کسی کے بنتے ہیں معبود بے زباں پتھر
کسی.کے ہاتھ پہ ہوتے ہیں کلمہ خواں پتھر
نگاہ شوق بناتی ہے قیمتی ورنہ
نگاہ عقل میں پتھر ہیں.بے گماں پتھر
مجھ ایسا کون پرستار ہوگا وحدت کا
صنم کدے میں ہے دل، دل میں ہے نہاں پتھر
وبال جان ہی بن جائے گا کمال سخن
نصیب سے جو ہوئے اپنے دودماں پتھر
دعائے نیم شبی رائیگاں نہیں جاتی 
یہ شہریار کا مصرع ہے کیا گراں پتھر
تمہارے نام کی جس دم صدا لگاتا ہوں
تو سرخرو مجھے کرتے ہیں.مہرباں پتھر
بناوٹی ہے محل اور جھونپڑی کا فرق
سبھی کے آخری گھر کا ہے جب نشاں پتھر
صائب جعفری
۲۹ ستمبر ۲۰۲۲
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 October 22 ، 01:04
ابو محمد
تو ہے جاں سے قریں تو پھر کیونکر
کاسہ دل لئے پھروں در در
 
دم بدم موت کھا رہی ہے مجھے
دم بدم ہو رہا ھوً زندہ تر
 
لا مکاں سے عجب ہے یہ نسبت
میں مکاں مند ہوں مگر بے گھر
 
خود ہی منزل ہوں خود مسافر ہوں
مجھ کو در پیش ہے اک ایسا سفر
 
ہیں عذاب و ثواب سب کے سب
حاصل اختیار نوع بشر
 
آپ کو پاکے ملتفت مرا دل
ہو کے عالم کا ہوگیا خو گر
 
آسماں تک رہا ہے حسرت سے
لگ گئے جب سے مجھ کو عشق کے پر
 
یہ جو مجھ میں انا کا ہے عنصر
ظاہرا یہ بھی ہے ترا ہی اثر
 
فتوئے کفر کو کہے تمغہ
ایک عاشق سوا ہے کسکا جگر
 
شہر دل کے لئے شب یلدا
ہے اماوس کی رات کا منظر
 
مجھ کو معلوم ہی نہ تھا صائب
تو ازل سے ہے مجھ میں جلوہ گر
 
،Dec 24,2021 
12:37 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:37
ابو محمد

جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار

مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے


عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون

خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
 میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون

خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون

آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون

تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون

بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون

حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون

 راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون

ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون

جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون

۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 July 21 ، 01:01
ابو محمد

 غزل

گر خدا وند کو خدا کرلیں

زندگی موت سے جدا کرلیں

زندہ لاشیں سمجھ نہ پائیں گی

چلئے مردوں سے کچھ گلا کر لیں

غیر کے ساتھ بات دور کی ہے

کاش ہم خود سے ہی وفا کر لیں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 June 19 ، 01:41
ابو محمد


دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گلزار نہیں

ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں

حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز

بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں

یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے

آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 08 June 19 ، 01:38
ابو محمد

اگر  دل میں بسا تیرے خدا ہے

تو پھر دنیا میں کس کو ڈھونڈتا ہے

مجھے تقدیر سےبس یہ گلا ہے

کہ جو قسمت میں لکھا تھا ملا ہے

خوشی کا گھر ہے یا ماتم کدہ ہے

تمہیں اس خانہ ویراں سے کیا ہے

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 June 19 ، 14:29
ابو محمد


آنکھوں کے دیپ راہوں میں آپ کی جلاکر

بیٹھا ہوں مدتوں سے بستی نئی بسا کر

ان تیز آندھیوں میں طوفانی بارشوں میں

دل کا چراغ رکھوں کس طرح سے بچا کر

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 April 19 ، 19:39
ابو محمد