کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲ مطلب در آگوست ۲۰۲۲ ثبت شده است

ڈوبے ہیں سوگ میں آج ارض و سما
اربعین آگیا اربعین آگیا
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
شہ کا غم اس طرح سے مناتے چلو
خفتہ انسانیت کو جگاتے چلو 
مقصد کربلا ہو جہاں پر عیاں
حریت کے ترانے سناتے چلو
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا.....
 
لذتوں میں نہ کھو جائے غم کی اساس
یاد رکھنا حسین ابن حیدر کی پیاس
زیر خنجر وہ سجدہ، وہ راز و نیاز
اے جوانو! تمہیں اس کا رکھنا ہے پاس
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا..
 
 
جس کی خاطر کٹایا شہ دیں نے سر
اس سے للہ بناؤ نہ تم.مال و زر
دین حق پر نہ آنے دو حرف اب کوئی
بہر اسلام ہوجاؤ سینہ سپر
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعیں آگیا اربعیں آگیا...
 
مقصد سرور دیں کا باندھے ہدف
دشمن حق کھڑے ہیں سبھی صف با صف
جس کو مہدی کی نصرت کا ارمان ہے
آئے میدان میں آئے اب سربکف
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
دل میں باقی ہے غیرت کی گر کچھ رمق
شہ کے انصار سے لیجئے کچھ سبق
مثل مسلم حبیب و زہیر آئیے
کیجئے فرق باطل کو اب بڑھ کے شق
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا....
 
بے کسی پر ہیں عابد کی گریہ کناں
بے ردائی پہ زینب کی ہیں نیم جاں
 بے حجابی پہ لیکن وہ خاموش ہیں
کیسے مانوں انہیں شہ کا میں نوحہ خواں
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا.....
 
دل میں ہے گر ذرا خوف پروردگار
اور سچا ہے گر عشق دلدل سوار
بد چلن غالی و بد عقیدہ کو اب
مت کہو شاعر حجت کردگار
خون.ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا....
 
بیچتا ہے کوئی آج خاک شفا
اور عزا دار ہیں اس پہ جاں سے فدا
ہوش میں آؤ عباس کے عاشقو!
اس سے پہلے کہ لٹ جائے شہ کی عزا
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعیں آگیا اربعیں آگیا....
 
جب کہ عابد کو حکم رہائی ملا
ہئے سکینہ سکینہ کی گونجی صدا
قید خانے میں روتی رہی اک لحد
اور کنبہ سوئے کربلا چل پڑا
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا........
 
شام کا نام سن کر تڑپتا ہے دل
ہائے بازار تھا کس قدر جاں گسل
مل گئی ہیں حرم کو ردائیں مگر
بے ردائی کا غم کیسے ہو مندمل
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
ایک سقا کا آؤ کریں تذکرہ
نام سے جس کے زندہ ہے اب تک وفا
پہلے تن سے جدا اس کے بازو ہوئے
پھر فرس سے زمین پر وہ غازی گرا
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
اکبر خستہ جاں کا بھی ماتم کریں 
قاسم نوجواں کا بھی ماتم کریں
اشک برسائیں عون و محمد پہ اور
اصغر بے زباں کا.بھی ماتم.کریں
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین اگیا.....
 
شام سے کربلا آگیا کارواں
خاک اڑانے لگا نیلگوں آسماں
خود کو پشت شتر سے گرانے لگیں
پا کے کرب و بلا کی ہوا بیبیاں
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعیں آگیا اربعیں آگیا
 
علقمہ پر گئیں بنت شاہ انام
اور عباس سے یوں ہوئیں ہم.کلام
میرے غازی اے شیر جری دیکھ لو
آگئی ہے بہن فتح اب کرکے شام
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
مرقد شہ پہ کہتی تھیں ام رباب
دیجئے میرے والی کچھ اس کا جواب
کیا مدینہ کو جائے وہ جس کا ہوا
شام اور کربلا میں اثاثہ خراب 
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
سب شہیدوں کے سر دفن جب کرچکے
تب یہ سجاد زینب سے کہنے لگے
اے پھپھی اماں چلئے وطن کو چلیں
تاکہ یثرب میں اب فرش مجلس بچھے
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
شور گریہ سے محشر اٹھانے لگے
غم سے لبریز جانیں گنوانے لگے
چھوڑ کر قبر پیاروں کی اہل حرم
کربلا سے مدینہ کو جانے لگے
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا...
 
میلوں ٹھیلوں سے ایسے ہوں بیزار میں
شہ کی نصرت کو ہردم ہوں تیار میں 
لب پہ صائب کے ہے بس دعا اک یہی
مثل جابر بنوں شہ کا زوار میں
خون ناحق افق پر ہے پھر چھا گیا
اربعین آگیا اربعین آگیا
 
صائب جعفری
قم مقدسہ
Aug 18,2022 
3:22 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 August 22 ، 17:50
ابو محمد
۱. سجاد بے بسی سے آنسو بہا رہے ہیں
زینب کو.ساتھ لے کر بازار آرہے ہیں
 
۲.اللہ خیر کرنا قیدی گذر نہ جائے
مقتل سے لے کے ظالم عابد کو جا رہے ہیں
 
۳.کوٹھوں سے پھینکتے ہیں عابد پہ آگ شامی
اور اہل بیت احمد پتھر بھی کھا رہے ہیں
 
۴.کربل سے تا بہ زنداں زنجیر کے قلم سے
فتح مبیں کا.نقشہ عابد بنا رہے ہیں
 
۵.بعد حسین زینب سجاد اور سکینہ
ایوان شام و کوفہ بے تیغ ڈھا رہے ہیں
 
۶.دین خدا کی خاطر گھر بار سب لٹا کر
ایوب صبر کرنا عابد سکھا رہے ہیں
 
۷.زندان میں سکینہ بابا سے جاملی ہے
سجاد طوق پہنے میت اٹھا رہے ہیں
 
۸.ہر ہر قدم پہ عابد ہر ہر ستم کو سہہ کر
حقانیت کا رب کی نغمہ سنا رہے ہیں
 
۹.لب بند ہیں ابوذر، صائب قلم ہے گریاں
سجاد کے مصائب یوں خوں رلا رہے ہیں
 
 
صائب جعفری
قم المقدسہ
۱۱ محرم ۱۴۴۴
Aug 09,2022 
2:07 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 August 22 ، 17:43
ابو محمد