کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

مرثیہ 

تحقیق و تدوین: سید صائب جعفری

مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی موت یا شہادت  پر اس کے اوصاف بیان کر کے رنج و غم کا اظہار کیا جائے۔ اردو میں مرثیہ کا لفظ میدان کربلا میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے دیگر رفقا کی شہادت کے بیان سے مخصوص ہو گیا ہے۔ دیگر لوگوں کی موت پر کہے جانے والے مرثیوں کو شخصی مرثیہ یا تعزیتی نظم کہا جاتا ہے۔

مرثیہ کے اجزائے ترکیبی

مرثیہ کے درج ذیل اجزائے ترکیبی قرار پائے ہیں۔

۱۔تمہیدیا  چہرہ

۲۔ سراپا

۳۔ رخصت

۴۔ آمد

۵۔ رجز

۶۔ رزم/جنگ

۷۔ شہادت 

۸۔ بین۔ دعا

تمہید یا چہرہ

مرثیہ کا ابتدائی حصہ چہرہ کہلاتا ہے۔ چہرہ دراصل مرثیہ کی تمہید ہے۔ اس میں مختلف موضوع دیکھنے کو ملتے ہیں مثلاً مناظر فطرت، قلم یا شعر کی تعریف، شاعرانہ تعلی ، صبح و شام کا بیان ۔تمام مرثیہ میں بالعموم اور مرثیہ کے چہرہ اور تمہید میں بالخصوص محاکات نگاری کو بڑا دخل ہے لہذا تمہید یا  چہرہ لکھنے کے لئے محاکات نگاری کی اچھی خاصی مشق ہونی چاہئے۔ مرزا دبیر  نے اپنے ایک مرثیہ کا آغاز یوں کیا ہے۔

پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی پنہاں درازئِ پر طاؤسِ شب ہوئی

اور قطع زلفِ لیلیِٰ زہرہ لقب ہوئی مجنوں صفت  قبائے سحر چاک سب ہوئی

فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لئے

دن چار ٹکڑے ہوگیا پیوند کے لئے

یوسف غریق چاہِ سیہ نا گہاں ہوا یعنی غروب ماہِ تجلی نشاں ہوا

یونس دہان ماہئِ شب سے عیاں ہوا یعنی طلوع  نئیر مشرق ستاں ہوا

فرعون شب سے معرکہ آراء تھا آفتاب

دن تھا کلیم اور ید بیضا تھا آفتاب

نکلا  افق سے عابد روشن ضمیر صبح محراب ِ آسماں ہوئی جلوہ پذیرِ صبح

کھولا سپیدی  نے جو مصلائےپیر صبح پھر سجدہ گاہ بن گیا مہر منیر صبح

کرتی تھی شب غروب کا سجدہ درود کو

سیارے ہفت عضو بنے تھے سجود کو

سراپا

مرثیہ کے اس حصہ میں شاعر شہید کا سراپا بیان کر تا ہے  مثلاً اس کے خد و خال، قد و قامت اور شان و شوکت وغیرہ اور اس دیگر اخلاقی خوبیاں اور ماورائی طاقتوں کو بیان کرتا ہے۔ مرثیہ کا یہ حصہ خصوصی خوبصورتی کا حامل ہوتا ہے اور اس میں شاعری پر زیادہ عبور و تسلط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ حصہ اکثر شاعرانہ غلو سے مملو ہوتا ہے لہٰذا  جگہ جگہ شاعر کو یہ لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ شاعرانہ غلو کے ساتھ کہیں شرک کی وادی میں قدم نہ رکھ دے۔میر انیس  حضرت علی  اکبر علیہ السلام کا سراپا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ہم شکلِ مصطفیٰ کا ہے کیا حسن کیا جمال صبح جبیں بھی اور شبِ گیسو بھی بے مثال

یہ لب یہ  خط یہ چشم یہ ابرو یہ رخ یہ خال یاقوت و مشک و نرگس و نجم و مہ و ہلال

اک گل پہ یاں ہزار طرح کی بہار ہے

چہرہ نہ کہئے، قدرت پروردگار ہے

رخصت

کربلا کے میدان میں ہر شہید نےمیدان جہاد میں جانے سے قبل اپنے آقا و مولا سے اجازت طلب کی اور اپنے گھر والوں اور دوست احباب سے رخصت ہوا۔ اس لئے یہ رخصت فنی مراثی کا ایک جزو بن گئی ۔ رخصت کو بیان کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر  مقتل  سے آگاہ ہو اور تاریخ کو تخئل اور احساس کے پیرائے میں بیان کرے ۔ مرثیہ کے اس حصہ میں شہید کے اشتیاق شہادت اور اس کے اعزاء و اقربا کے غم کو اندوہ کو بیان کیا جاتا ہے۔

پھر میر انیس رحمۃ اللہ علیہ کے مرثیہ کے دو بند پیش کرتے ہیں جس میں حضرت عباس کی رخصت کا  حال بیان کرےتے ہیں۔

لڑکوں نے معرکے میں کئے اپنے اپنے نام کیا میں غلامِ خاص نہیں یا شہ انامؑ

ایسا دن اور بھی کوئی ہووے گا یا امامؑ؟ کس کام کا جو آج نہ کام آئے گا غلام

مشکل ہے ایسے وقت میں رکنا دلیر کا

آخر پسر ہوں شیر الٰہی سے شیر کا

روتا ہوا جھکا پئے تسلیم وہ جری سب روئے مشک دوشِ مبارک پہ جب دھری

اک آہِ سرد زوجۂ عباسؑ نے بھری صدمے سے رنگ زرد تھا اور تن میں تھرتھری

سر سے رداء بھی دوش تلک آ کے گر پڑی

بانو کے پاس خاک پہ غش کھا کے گر پڑی

آمد

رخصت کے بعد میدان جہان میں آمد کا حال بیان کیا جاتا ہے یہاں مرثیہ میں ایک جوش و خروش نظر آتا ہے اور شاعر جذباتیت کے عروج پر ہوتا ہے۔ اس حصہ کو آمد کہتے ہیں۔

کس شیر کی آمد کے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

ہر ایک سلاطین زمن کانپ رہا ہے رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے

شمشیر بکف دیکھ کے حیدرؑ کے پسر کو

جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

رجز

عربوں کا رواج تھا میدان  جنگ میں آکر مبارز طلبی کیا کرتے تھے اور اپنا تعارف کرواتے تھے اور اس تعارف میں اپنے ابا و اجداد کے اوصاف و کمالات اور اپنی بہادری کا تذکرہ کرتے تھے اور  دشمن پر اپنی برتری کو قبل از جنگ ثابت کرنے کے لئے اشعار یا تقریر کا سہارا لیتے تھے اس کو رجز کا نام دیا جاتا تھا۔  کربلا کے شہداء کے بارے میں لکھے جانے والے مراثی میں رجز کے بیان تقریبا جزو لاینفک رہا ہے۔یہاں بھی میر انیس کے مرثیے سے حضرت عباس ؑ کا ایک رجز نقل کر تے ہیں۔

پہنچے جو دشت کیں میں اڑاتے ہوئے فرس گھوڑے کو ہاتھ اٹھا کے یہ آواز دی کہ بس

دیکھیں صفیں جمی جو چپ و راست پیش و  پس نعرہ کیا  کہ نہر پہ جانے کی ہے ہوس

روکے گا جو وہ موت کے پنجے میں آئے گا

ہٹ جاؤ سب کہ شیر ترائی میں جائے گا

تم کیا پہاڑ بیچ میں گر ہو تو ٹال دیں شیروں کو ہم ترائی سے باہر نکال دیں

مہلت نہ ایک کو دم جنگ و جدال دیں پانی تو کیا ہے آگ میں گھوڑے کو ڈال دیں

منہ دیکھتے ہیں جو ہیں نگہبان گھاٹ کے

لے جائیں گھر پہ تیغ سے دریا کو کاٹ کے

رزم/جنگ

رجز کے بعدشاعر جنگ کے مناظر پیش کرتا ہے۔  جس میں تلوار گھوڑا، جنگ کا انداز اور دلاوران  کی بے جگری کا بیان ہوتا ہے۔ شاعر اس حصہ میں اپنے مورد نظر دلاور اور جنگ  آور کی رزمیہ صلاحیتوں کا بیان کرتا ہے ۔ یہ حصہ جوش ولولہ کے ساتھ ساتھ  درد و الم کا بیان بھی سمیٹتا ہےاور شاعر جوشیلی جنگ کے ہمراہ ہی درد و غم کی منظر کشی بھی کرتا ہے۔

اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی سونلائے رنگ میں  تھی ضیاء آفتاب کی

سوکھے وہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی تصویر، ذوالجناح پہ تھی بو تراب کی

ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں

بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں

پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی اللہ کا غضب ہے لڑائی حسین کی

دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی

بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا

اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا

اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں آنسو بھرآئے روک لی رہوار کی عناں

مڑکر پکارے لاش پسر کو شہ زماں تم نے نہ دیکھی جنگ پدر اے پدر کی  جاں

قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں

لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں

شہادت

 جنگ کے بعد شاعر اپنے دلاور کی شہادت کے حال کو بیان کرنے طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یہاں شاعر شدید رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اوراپنے الفاظ کے ذریعے  درد و الم کاایسا  ماحول پیدا کرنی کی کوشش کرتا ہے کہ سنے والی ہر آنکھ اشک بار ہوجائے ۔ یہاں واقعا شاعر کی شعری مہارت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سامعین اور قارئین تک اس درد و الم کی کیفیت کو پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں جس کو اس نے خود محسوس کیا ہے۔

یہاں شاعر شہادت کا حال کبھی تفصیل سے اور کبھی اختصار سے بیان کرتا ہے۔

گرتے ہیں اب حسین فرس پر سے ہے غضب نکلی رکاب پائے مطہر سے ہئے غضب

پہلو شگافتہ ہوا خنجر سے ہئے غضب غش میں جھکے عمامہ گرا سر سے ہئے غضب

قرآن رحلِ  زیں سے سر فرش گر پڑا

دیوار کعبہ بیٹھ گئی عرش گر پڑا

بین

اس جز میں شاعر اس حالت کو بیان کرتا ہے کہ جب شہادت کے بعد جب خبر شہادت یا شہید کی میت عزیز و اقارب تک پہنچتی ہے تو وہ کس طرح سے بین  کرتے ہیں کچھ بے قرار ہوتے ہیں اور کچھ صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔

اس گیسوؤں والے کے بچھڑ جانے نے مارا افسوس بڑھا ضعف، گھٹا زور ہمارا

دنیا میں محمد کا یہ ماتم ہے دوبارا عالم  ہے عجب، جانِ جہاں آج سدھارا

چادر بھی نہیں لاشۂ فرزند حسیں پر

کس عرش کے تارے کو سلا آئے زمیں پر

 

دعا و مدعا

یہ جز مرثیہ میں ہمیشہ اختیاری رہا ہے یعنی کبھی شعراء نے مرثیہ کے اختتام پر دعا اور مدعا  کو نظم کیا ہے اور کبھی بغیر دعا کے ہی مقطع پر مرثیہ کا اختتام کر دیا ہے۔

بس انیسؔ اب یہ دعا مانگ کہ اے رب عباد لکھنؤ کے طبقے کو تو سدا رکھ آباد

رونے والے، شہِؑ والا کے رہیں خلق میں شاد ان کے سائے میں برو مند  ہوں ان کی اولاد

عشرہ ماہِ عزاء نالہ کشی میں گذرے

سال بھر شہ کے غلاموں کو خوشی میں گذرے

یہ کلاسک  مرثیہ کے اجزاء ہیں مگر ایسے مراثی جن میں ان تمام اجزاء کو برتا گیا ہو کم ہیں بعض مراثی صرف  رجز ، رزم اور شہادت و بین کے بیان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بعض صرف بین اور شہادت پر بعض تمہید اور شہادت کے بیان پر۔ لیکن فنی طور پر مکمل مرثیہ  وہی ہے جس میں ان تمام اجزاء کی رعایت کی  گئی  ہو۔ 

جدید مرثیہ کے اجزاء

جدید مرثیہ میں یہ اجزاء کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور جدید مرثیہ  کے اجزاء صرف نام کے تبدیلی کے ساتھ قصیدہ سے ملتے جلتے ہیں

۱۔تمہید یا چہرہ۔۔۔۔ تشبیب

۲۔گریز ۔۔۔۔۔ تشبیب  کا مرثیہ سے ارتباط

۳۔رزم شہادت بین

۔۔۔۔۔

جدید مرثیہ میں تمہید یا چہرہ میں اخلاقی اجتماعی، دینی عرفانی اور دوسرے مضامین باندھے جاتے ہیں اس کے بعد ایک گریزیہ بند کے ذریعے شاعر اپنی مسدس کا رخ مرثیہ کی جانب موڑتا ہے اور پھر شہادت بیان کر دیتا ہے۔ 

جدید مرثیہ کے جو اجزاء ہم نے بیان کئے ہیں ان تمام اجزاء کا مشاہدہ نسیم امروہوی صاحب اور  قیصر بارہوی صاحب کے مراثی میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

اس مباحثہ میں ہم نے کوشش کی ہے فقط کربلا اور آئمہ معصومین اور ان کے انصار کے بارے میں لکھے جانے والے مرثیوں کا حال بیان کریں۔ اب لکھنے والے کو اختیار ہے کہ وہ جدید مرثیہ کے اجزاء کا التزام اپنی نطم میں کرے یا کلاسک مرثیہ کا ۔۔ دونوں قسم کے مراثی اپنی لطافت  رکھتے ہیں۔

ہیئتِ مرثیہ

متقدمین نے مرثیہ کو مثنوی، مثلث، مربع، مخمس، مسدس ، رباعی ، قطعہ اور قصیدہ کی ہئیت میں لکھا ہے لیکن میر انیس اور مرزا دبیر کے بعد مسدس کی ہئیت مرثیہ کے ساتھ خاص کر دی گئی۔ انیس و دبیر کے زمانے میں ہی مرثیہ کو مسدس کے ساتھ خاص کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے اوزان بھی متعین کر دئیے گئے تھے۔  جو اس ترتیب سے ہیں۔

 بحر ہزج مثمن سے ۔۔۔۔مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن/مفاعیل۔۔۔ کا وزن  لیاگیا۔

بحر مضارع مثمن سے۔۔۔۔۔مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات۔۔۔۔ چنے گئے۔

بحر رمل مثمن ۔۔۔۔۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن/فاعلات ۔۔۔ اور ۔۔۔فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن/فعِلن/فعلان/فعِلان کے اوزان لئے گئے۔

بحر مجتث  مثمن سے ۔۔۔۔مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن/فعِلن/فعلان/فعِلان۔۔۔۔ کے وزن کو لیا گیا۔

بحر خفیف مسدس سے۔۔۔۔فاعلاتن مفاعلن فعلن/فعِلن/فعلان/فعِلان۔۔۔۔ کا انتخاب کیا گیا۔

بحر متقارب  مثمن سالم۔۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعولن ۔۔۔۔ منتخب ہوئی۔

 جدید مرثیہ میں اوزان کی قید کو بھی ہٹا لیا گیا ہے اور شاعر جس وزن میں چاہے مرثیہ لکھ سکتا ہے۔

 

۔۔۔۔

آخر میں ہم احباب سے گذارش کریں گے   میر انیس اور دبیر ، نسیم امروہوی اور جوش ملیح آبادی کے مراثی کا ضرور مطالعہ کریں اور اگر وقت میسر ہو تو ڈاکٹر ہلال نقوی اور  قیصر بارہوی  کے مراثی کا بھی مطالعہ کریں۔

چند ایک مراثی کا پہلا مصرع بیان کرتا ہوں ان کو انٹرنیٹ پر سرچ کریں اور ضرور پڑھیں۔ ان میں  سے کچھ مرثیے سبک قدیم پر اور کچھ جدید پر ہیں ان کے مطالعے سے قدیم اور جدید مرثیہ کا انداز اور ان کے اجزاء بہت بہتر طریقہ سے ذہن نشین ہو جائیں گے۔

۱۔ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے۔۔۔ میر انیس

۲۔ پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔۔۔۔ مرزا دبیر

۳۔ جب چہرہ افق سے اٹھی سرمئی نقاب۔۔۔ جوش ملیح  آبادی

۴۔ شریک دعوت اسلام ہیں ابوطالبؑ۔۔۔۔۔۔ نسیم امروہوی

۵۔ نماز سے بشریت عروج پاتی ہے۔۔۔۔۔ قیصر بارہوی

 

والسلام

سید صائب جعفری

نظرات  (۱)

21 July 20 ، 08:44 ممتاز حسین

سلام علیکم

ماشاءاللہ صائب بھائی صنف مرثیہ کے بارے انتہائی عمدہ اور مفید تحریر ہے۔ خدا وند آپ کو سلامت رکھے۔

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی