ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے (منقبت)
طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے
کعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے
یوں تو عبادت میں حیدر کا کوئی نہیں ثانی لیکن
سجدہ گذاروں کا.سید بس نام ہوا سجاد کا ہے
نہج بلاغہ ایک تجلی جیسے ذات حیدر کی
ایسے زبور آل احمد اک جلوہ سجاد کا ہے
ان کاصحیفہ پڑھ کے خدا کی آپ رضا پا سکتے ہیں
یعنی وہاں بھی جو چلتا ہے وہ سکہ سجاد کا ہے
حمد خدا اور نعت نبی کا کیف تو پائے گی ہی زباں
میرے لبوں پر سانجھ سویرے ذکر سجا سجاد کا ہے
جان ہتھیلی پر رکھ کر کیونکر نہ رہ الفت پہ چلو
شکر خدا تن من دھن سب کچھ نام خدا سجاد کا ہے
کرب و بلا ہے فکر حسین ابن حیدر کا آئینہ
شام میں تخت و تاج الٹنے کا نقشہ سجاد کا ہے
خلق خدا مقروض نہ ہوگی کیسے بھلا سجاد کی جب
دین محمد کے کاندھوں پر بھی قرضہ سجاد کا ہے
جس نے نقاب روئے باطل بعد زہرا چاک کیا
ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے
عرش کے باسی فرش زمیں پر نور کی بارش کرنے لگے
میں نے تو بس محفل میں آکر نام لیا سجاد کا ہے
در پہ جناں کے مجھ کو روکا جب رضوان جنت نے
کہنے لگا مالک جانے دے یہ بندہ سجاد کا ہے
بتلا دو صائب یہ جہاں کو کیا ڈرنا آلام سے جب
رحمت رب بن کر قائم سر پر سایہ سجاد کا ہے
صائب جعفری
۱۳ مارچ ۲۰۲۰
۱:۴۰ بامداد
قم المقدس ایران