کر نہ پائے سورما جو خنجر و شمشیر سے(منقبت)
Wednesday, 22 May 2019، 02:35 AM
کر نہ پائے سورما جو خنجر و شمشیر سے
کام ابن مرتضیٰ نے وہ لیا تحریر سے
برّشِ شمشیر نے قرطاس سے کھائی شکست
تاج ششدر رہ گیا یوں کِلک کے شہتیر سے
نغمہِ توحید سے مسحور عالم ہوگیا
غمزہِ عشق خدا چھیڑا کچھ اس تدبیر سے
قلب نے نام حسن سے پائی ایسی روشنی
آفتاب چرخ بھی حیران ہے تنویر سے
یا حسن کہہ کر اٹھاتا ہوں خس و خاشاک جب
سہم جاتی ہے خود آندھی جراءتِ تعمیر سے
ہے یقیں کا مرحلہ زد پر ہوائے تند کے
جل رہا ہے یہ چراغِ زندگی توقیر سے
جانتا ہوں ان کی رحمت کا اشارہ تھا وہ نور
کام کیا ہے اب مجھے اس خواب کی تعبیر سے
عرشِ اعظم تک پہنچ جاتی ہے میری ہر دعا
یہ اثر پایا حسن کے نام کی تاثیر سے
مجتبیٰ کے عشق کا فیضان ہے محسن کہ اب
مشکلیں الجھا نہیں کرتیں میری تقدیر سے
۱۴ رمضان ۲۰۱۰، کراچی
19/05/22