امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ
مقالہ نگار: سید صائب جعفری
حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران
سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳
مقدمہ
ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر کے مقابلہ میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔ آئمہ علیہم السلام چونکہ کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔
آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔
اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔
یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا کرکے واضح کیا۔
اس مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔
مسئلہ کا بیان
خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو کو سن کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔
پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔
امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔
امام نقیؑ کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔
امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔
اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔
۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟
۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟
۳۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟
امام نقی علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات
شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔
*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*
*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*
*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی*
*اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*
*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور*
*جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*
*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں*
*جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*
*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن*
*مقصر، غالی اور ان کے ہر اک حب دار پر لعنت*
*جہاں چرسی موالی اور نُصیری پیر کہلائیں*
*ہو ایسی فکر اور اس فکر کے معمار پر لعنت*
*یہ فن شاعری ہے اک امانت حضرت حق کی*
*خلاف حق جو برتے اس خیانت کار پر لعنت*
*سبب ترویج حق کا ہے وجود نائب مہدی*
*تو پھر صائب دکھاوے کے ہراک دیں دار پر لعنت*
صائب جعفری
Feb 18,2022
2:32 AM
قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام
پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے
یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے
شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے
جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے
یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے
میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے
مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے
کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے
نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے
جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے
صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022
2:34 AM
محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار
کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی
صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی
منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی
سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی
میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی
قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی
دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی
درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی
پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی
یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی
جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی
صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022
4:47 PM
انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل*
بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے
اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے
یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے
یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر ضروری ہے
سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے
جو پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے
یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے
وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے
دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"
سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے
نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے
بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے
طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے
صائب جعفری
عزیز رہبر ملت سلام ہو تم پر
نقیب لشکر حجت سلام ہو تم پر
نصیب ہر کس و ناکس کو کب ہے یہ رفعت
اے انتخاب شہادت سلام ہو تم.پر
تمہارے نام سے لرزاں ہے اب بھی کفر کا جسم
مجاہدین کی ہیبت سلام ہو تم پر
ریاض عشق کے پودوں کی آبیاری کو
ہوئے ہو خون میں لت پت سلام ہو تم پر
صراط حیدر کرار پر بڑھاتے قدم
چلے گئے سوئے جنت سلام ہو تم پر
لہو سے اپنے پھر اک بار تم نے کر ڈالا
نصیب کفر ہزیمت سلام ہو تم پر
رہ امام دکھانے کو بن گئے قاسم
چراغ راہ ہدایت سلام ہو تم پر
دعا ہے صائب خستہ جگر کو مل.جائے
تمہارے پہلو میں تربت سلام ہو تم پر
صائب جعفری
۱۵ نومبر ۲۰۲۰
قم ایران
موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)
کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا
دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا
بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی
امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں
غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت
پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی
کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں
تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال
ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے
دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا
علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر
یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر
ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا
انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب
تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو
ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست
السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام
انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام
انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات
صائب جعفری
Feb 03,2022
8:24 PM
خمین ایران
حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر
معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*
ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں
بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں
یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں
برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں
یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں
طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*
غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں
جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں
علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں
گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں
ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں
صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں
علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں
جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں
زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں
۲۸ جولائی ۲۰۲۱
جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار
مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے
عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون
خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون
خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون
آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون
تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون
بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون
حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون
راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون
ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون
جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون
۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران
عزاداروں سے خطاب
(بشکل مثنوی)
سرخئِ خون شفق نے یہ افق پر لکھ دیا
اے زہے قسمت کہ پھر درپیش ہے شہ کی عزا
:
*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*
مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*