کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

۲۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «Saieb jafri» ثبت شده است

*امر بیل*
ایک درخت تھا پھل دار پھول دار سرسبز و شاداب اس پر دو پرندوں کے آشیاں تھے سالہا سال پرسکون زندگی گذرتی رہی کہ ایک روز اس درخت کے کنارے امر بیل اگ آئی نحیف و زار و لاغر.
 درخت نے امر بیل سے کہا: اے امر بیل تو میرے سہارے کیوں کھڑی نہیں ہوجاتی؟
امر بیل کی تو جیسے دلی مراد برآئی اور امر بیل نے آہستہ آہستہ درخت سے لپٹنا شروع کردیا. درخت بیچارے کو خبر ہی نہ تھی کہ امر بیل اس کے ساتھ کیا کرے گی.
 کچھ دن بعد امر بیل خوب پھلنے پھولنے لگی اور درخت کی شادابی ماند پڑنے لگی درخت کے پھول مرجھانے لگے اور پھل سوکھنے لگے تو امر بیل نے درخت کے کان بھرنے شروع کردئیے اور اپنے پنپے اور اپنی بقا کے لئے درخت کو ہزاروں جھوٹے قصے سنادئیے.
 درخت امر بیل کی باتوں کا یقین کربیٹھا اور ایک دن درخت پر آشیاں بنائے پرندوں سے کہنے لگا: دیکھوں میں بوڑھا اور کھوکھلا ہوگیا ہوں اور کے ذمہ دار تم دونوں ہو. تم میرے برگ و ثمر کھا گئے ہو تم میرے پھولوں کے دشمن ہو تم اور تمہارے شور شرابے نے مجھے کھوکھلا کردیا ہے اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ درخت نے کہا
 دونوں پرندے ورطہ حیرت میں تھے شدید دکھ اور تکلیف میں مگر ان کے پاس چارہ کار کچھ نہ تھا... دونوں نے عاقبت اسی میں جانی کہ بوڑھے شجر سے اپنا آشیاں لے کر پہاڑوں اور جنگلوں کی خاک چھاننے نکل پڑے
 پرندوں کے اڑنے کے بعد ایک دن اس درخت کے پاس سے ہرن کا گذر ہوا ہرن نے تباہ حال درخت کو دیکھا اور شاداب امر بیل کو تو درخت کی تباہی کا سبب سمجھ گیا اور درخت سے کہنے لگا: بھائی درخت یہ امر بیل تمہیں کھا گئی ہے تم اس کو خود سے جدا کیوں نہیں کردیتے تو درخت نے جواب دیا
 اے ہرن میری اس حالت کے ذمہ دار وہ پرندے ہیں جو.مجھے کھا گئے کھوکھلا کرگئے. اس امر بیل کے تو مجھ پر ہزاروں احسان ہیں  اور یہ احسان کیا کم ہے اس نے مجھے چاروں طرف لپٹ کر مجھے تھام رکھا ہے ورنہ تو میں کب کا گر چکا ہوتا. کاش میں نے ان پرندوں کو.گھونسلا بنانے کی اجازت نہ.دی ہوتی..............
۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 23:03
ابو محمد
عطا ہوتی ہے رب سے جب اجازت نعت لکھنے کی
تو عادت خود ہی بن جاتی ہے فطرت نعت لکھنے کی
 
چلو چل کر ابو طالب سے کچھ خیرات لیتے ہیں
مچلتی ہے دل بے کل میں حسرت نعت لکھنے کی
 
سلام و.منقبت مدحت قصیدہ نظم ہو یا نثر
ہیں جسکا خمس یہ وہ ہے غنیمت نعت لکھنے کی
 
شریک کار اپنا جان کر مجھ کو.امین وحی
کیا کرتے ہیں ہردم ہی حمایت نعت لکھنے کی
 
من الخلق الی الحق اور من الحق الی المخلوق
سفر جسکا ہے طالب ہے ریاضت نعت لکھنے کی
 
یہ فیضان کرم ہے خاندان  اہل عصمت کا
میسر خاکیوں کو ہے سہولت نعت لکھنے کی
 
بہت ہی مختلف ہے منقبت سے لحن میں اپنے
نہیں ہوتی ہر اک میں یوں بھی قدرت نعت لکھنے کی
 
جگر خوں کرنا پڑتا ہے ہر اک مصرع پہ تب جاکر
نصیب عشق ہوتی ہے سعادت نعت لکھنے کی
 
زمانہ ہو بغاوت کا یا دور اقتدار دیں
ہراک مصروفیت ہے خود ہی فرصت نعت لکھنے کی
 
بلحن حمد پا لیتے ہیں عاشق صورت حق کے
شب اسری کے پردے سے حلاوت نعت لکھنے کی
 
برائے شرح اخلاق اور احکام و عقائد ہے
ہمیشہ سے ہمیشہ تک ضرورت نعت لکھنے کی
 
ملک لے جائیں گے خود عرصہ محشر سے جنت میں
قلم قرطاس جب دیں گے شہادت نعت لکھنے کی
 
ستائش کی کوئی امید غیر حق سے کیوں رکھوں
سوائے حق نہیں جب کوئی قیمت نعت لکھنے کی
 
ملی خلق عظیم حضرت خاتم سے صائب کو
ہدایت نعت لکھنے کی حقیقت نعت لکھنے کی
 
صائب جعفری
قم ایران
۱۶ ربیع الاول ۱۴۴۴
Oct 13,2022 
5:52 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:52
ابو محمد
رنگ، رنگ کمال لیتے ہیں
عشق یعنی ملال لیتے ہیں
 
خود کو اپنی خودی سے کرکے جدا
اس کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں
 
عشق میں ڈوب کر ابھرنے کو
کربلا کی مثال لیتے ہیں
 
رات کا نام ہم سے اہل جنوں
کب برائے وصال لیتے ہیں
 
دیکھ کر زاہدوں کے سجدے رند
*سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں**
 
آو بہر نماز عشق ذرا
دل سے آب زلال لیتے ہیں
 
منعکس ہو جمال یار چلو
ظرف اپنا کھنگال لیتے ہیں
نیک و بد کوئی سوال نہیں
ہم ترے رخ سے فال لیتے ہیں
 
بیچ کر خود کو عاشقان جنوں
تیرے ہونٹوں کا خال لیتے ہیں
 
ابر باراں ہے سبزہ و گل ہے
آو حسرت نکال لیتے ہیں
 
ہم مروت کے مارے سانپوں کو
آستینوں میں پال لیتے ہیں
 
جسم کی.لذتوں کی خاطر ہم
روح و جاں پر وبال لیتے ہیں
 
صائب جعفری
زیبا کنارـ گیلان ـ ایران
۱۲ نومبر ۲۰۲۲
۲۱ آبان ۱۴۰۱
۱۷ ربیع الثانی ۱۴۴۴
 
*یہ مصرع میرتقی میر کا ہے اس پر فی البدیہہ طرحی محفل مشاعرہ میں اس تضمین کے ہمراہ مندرجہ بالا کہی گئی
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:44
ابو محمد
*جہاں فرشتوں کی خاطر بنی ہوئی حد ہے*
*وہاں بھی خاک ہماری پہنچ گئی حد ہے*
 
*ہم ایسے سادہ مزاجوں کے ساتھ دنیا کو*
*منافقت کی ضرورت پڑی ـ کوئی حد ہے*
 
*مجھے پھراتے رہے تم دیار ظلمت میں*
*تمہیں خبر تھی کہاں پر ہے روشنی حد ہے*
 
*ہوا تو خیر مخالف رہی ہمیشہ مگر*
*خود اپنے ہم بھی نہ حامی رہے یہی حد ہے*
 
*جنہیں ازل سے تمنا ہے موت کی میری*
*انہی کے ساتھ گذرتی ہے زندگی حد ہے*
 
*غموں پہ رقص کریں اور خوشی میں روئیں نہ کیوں؟*
*کہ غم خوشی میں نہاں غم میں ہے خوشی حد ہے*
 
*وہ حریت کا مبلغ ہے آج کل جس کا*
*ہے اختیار فقط قید بے بسی، حد ہے*
 
*جسے زمانہ سمجھتا ہے بے ضرر مجنوں*
*اسے ہے عشق کے رازوں کی آگہی حد ہے*
 
*ہر ایک رنگ میں اسکا ہی رنگ ہے لیکن*
*ہزار جلووں کا حاصل نہیں دوئی حد ہے*
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ـ ایران
12:55 AM 
Nov 16,2022
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:42
ابو محمد
زینت شیر کبریا زینب
جلوئے نور فاطمہ زینب
 
اک حقیقت تجلیات ہیں دو
در حقیقت ہیں فاطمہ زینب
 
اب بھی ایوان شام پر طاری
ہے ترا رعب و دبدبہ زینب
 
اربعیں جلوہ گاہ عشق حسین
ہے نشاں تیری فتح کا زینب
 
تیرے مفتوح تیری جاگیریں
کوفہ و شام و کربلا زینب
 
تاج کی مات تو یقینی.تھی
تھا جو تجھ سے مقابلہ زینب
 
خود کوپایا پناہ غازی میں
جب ترا نام.لے لیا زینب
 
کہہ رہا ہے حسین کا روضہ
شکریہ تیرا شکریہ زینب
 
چونکہ بنت بتول عذرا ہیں
بے رداؤں سے ہیں خفا زینب
 
بعد زہرا نمونہ اعمال
بہر زن کون ہے سوا زینب
 
زندگی زن کی اور آزادی
ہے فقط تیرا نقش پا.زینب
 
تیری چادر ہی تیری دنیا ہے
ہیں اگر تیری سیدہ زینب
صائب جعفری
Dec 01,2022 
12:28 AM
قم المقدسہ ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:39
ابو محمد
عشق کا رنگ رنگ لائے گا
خون خنجر کو مات دے دے گا
 
دور بارود کے وفور کا ہے
اب کھلونوں سے کون بہلے گا
 
ایک پتھر ہے ایک شیشہ ہے
دیکھئے کون کس کو توڑے گا
 
روشنی سے لڑا ہے پروانہ
کیا اندھیرا اسے نگل لے گا
 
وہ یہ سمجھا تھا میں رکوں گا نہیں
میں یہ سمجھا تھا وہ پکارے گا
ق
واعظا چٹکلے نہ چھوڑا کر
کون وعدوں پہ مے کو چھوڑے گا
بس میں ہے تو بیاں حقیقت کر
ان سرابوں سے کون بہکے گا
 
کوئی پتھر ہو کوئی ہیرا ہو
جوہری تو سبھی کو پرکھے گا
 
بال پر پھوٹنے لگیں گے جب
شوق پرواز دل میں ابھرے گا
 
یہ زمیں آسماں نہیں ہونگے
جب وہ رخ سے نقاب الٹے گا
 
وصل کی شب میں خواب سونے کا
شاید احمق ہی کوئی دیکھے گا
 
وہ کرے بات اور میں نہ.سنوں
صائب ایسا تو وہ نہ چاہے گا
 
صائب جعفری
قم المقدسہ ایران
Dec 02,2022 
2:07 AM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:37
ابو محمد
آن کہ سر کوثر بود دختر پیمبر بود
ھم جواب ابتر بود دختر پیمبر بود
 
شک مکن کہ در عالم بہر سالکان حق
او کہ مثل حیدر بود دختر پیمبر بود
 
اسم فاطمہ زہرا خود بیان گر این است
بہر نور پیکر بود دختر پیمبر بود
 
در دیار عقبیٰ تو خود بہ چشم می بینی
آن کسی کہ داور بود دختر پیمبر بود
 
آن کہ در دفاع از حق سد راہ دشمن شد
کفو او غضنفر بود دختر پیمبر بود
 
کیست در وجود خود منعکس کند حق را؟
پارہ پیمبر بود دختر پیمبر بود
 
در وجود او پنہان بود مرضئ یزدان
فجر و لیل و کوثر بود دختر پیمبر بود
 
ہیچ کس در این خصلت مثل او نمی باشد
 مادر پیمبر بود دختر پیمبر بود
 
پس چرا نہان قبرش از نگاہ عالم ماند؟
گرچہ خود منور بود دختر پیمبر بود
 
صائب جعفری
قم مقدس ایران
۱۸ دسمبر ۲۰۲۲
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:34
ابو محمد
قم المقدسہ کی ایک.طرحی محفل میں پڑھے گئے اشعار
 
مصرع طرح: *بشر کے بس میں نہیں تیری معرفت زہرا*
 
خدا ہی جانے ہے کیا تیری منزلت زہرا
حدود کون و مکاں تیری سلطنت زہرا
 
نبوت اور امامت کا ہو جو حلقۂ وصل
سواٰئے آپ کے کس میں ہے اہلیت زہرا
 
جلال و قہر خدا کا نشان ہوکے بھی ہیں
کمال صبر و کمال عبودیت زہرا
 
محمد اور علی.کے ہے ساتھ ساتھ رہی
بنائے دین میں تمہاری مشارکت زہرا
 
سکھا رہی ہے ولایت کا اتباع و دفاع
زمانے بھر کو تمہاری ہی شخصیت زہرا
 
یہ.کہہ رہے ہیں خمینی صفت ہمیشہ سے
تمہی سے سیکھی ہے ہم.نے.مزاحمت زہرا
 
نبی کے بعد مٹادیتے مشرکین اسلام
اگر نہ ہوتی تمہاری مداخلت زہرا
 
تمہارے خطبہ کے ہر لفظ کی صداقت نے
ملا دی خاک میں باطل کی تمکنت زہرا
 
لرز رہے ہیں جو ایوان شام و کوفہ کے
دکھا رہی ہے اثر تیری تربیت زہرا
 
بندھا ہے سر پہ جو حر کے رومال ایسا ہی
ہمیں بھی کیجئے اک تحفہ مرحمت زہرا
 
نہیں ہے جیسا کہ ادراک قدر کا.ممکن
بشر کے بس میں نہیں تیری معرفت زہرا
 
میں کچھ.شکستہ.سے جملے ورق پہ لکھتا ہوں
مری سطور میں بھرتی ہیں شعریت زہرا
 
کبھی چلوں گا تری راہ پر ضرور مگر
ابھی ہوں دنیا میں.مشغول معذرت زہرا
 
صائب جعفری
قم مقدس ایران
 
Jan 13,2023 
2:16 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:26
ابو محمد
*”نور زہراؑ کا زمانے میں درخشاں ہوا ہے“*
 
بسلسلہ ولادت باسعادت جگر گوشہ رسول ص، صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، قم المقدسہ میں ہونے والی ایک طرحی محفل مقاصدہ میں پیش کئے گئے کچھ تازہ اشعار:
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
اس پہ گلزار جناں شوق سے قرباں ہوا ہے
گل جو باغ نبوی میں ابھی خنداں ہوا ہے
 
کوثر و قدر نے چومے ہیں وہ لب ہائے سخن
جن پہ جاری تیری مداحی کا قرآں ہوا ہے
 
مدح زہرا میں ہے مشغول بقا کی خاطر
دیکھئے کیسا یہ دانا دل ناداں ہوا ہے
 
بن کر.اک اعلیٰ مثل نور الہی کے.لئے
نور زہرا کا.زمانے.میں درخشاں ہوا ہے
 
آپ کے دم سے ہی روشن ہوا اس کا امکاں
خلق پر جاری جو الله کا فیضاں ہوا ہے
 
دار دنیا تو تجلی ہے تیرے ایواں کی
عرصہ حشر بھی زہرا تیرا دیواں ہوا ہے
 
یہی.کافی ہے گواہی کو تری عصمت کی
تیری اولاد کا خیاط بھی رضواں ہوا ہے
 
ہے فرشتوں میں.جو قائم ابھی انسان کا بھرم
یہ بھی انسانوں پہ زہرا تیرا احساں ہوا ہے
 
منتظر آپ کے رومال کا ہے یہ بی بی
اشک پلکوں پہ ہماری جو فروزاں ہوا ہے
 
بارہا دیکھا ہے میں جو کسی سے نہ بنا
کام وہ آپ کی تسبیح سے آساں ہوا ہے
 
 
میرے ماں باپ کی.نیکی کا اثر ہے صائب
نام زہرا جو مری زیست کا عنواں ہوا ہے
 
صائب جعفری
قم مقدس ایران
Jan 12,2023 
4:52 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:22
ابو محمد
قم مقدس میں جناب میرزا علی محمد صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ طرحی منقبتی محفل میں پڑھے گئے اشعار...
*دشمن زہرا جہنم کی غذا ہوجائے گا*
 
دل جو مصروف ثنائے فاطمہ ہوجائے گا
دیکھنا فرض تبرا خود ادا ہوجائے گا
 
آئیں گی زہرا طلب کرنے جو حق معبود سے
حشر کے.میدان میں محشر بپا ہوجائے گا
 
تاجور بھی اس قدموں میں سعادت پائیں گے
فاطمہ زہرا کے در کا جو گدا ہوجائے گا
 
کارزار عشق میں درمان زخم دل نہ ڈھونڈ
درد حد سے بڑھ گیا تو خود دوا ہوجائے گا
 
پھر عیاں ہونگی حدود کائنات فاطمہ
جب جہاں کا خشک و تر سب کچھ فنا ہوجائے گا
 
جب پکارے گا جہنم اے خدا ہل.من مزید
دشمن زہرا جہنم.کی غذا ہوجائے گا*
 
اس گھڑی ہوجائے گی پوری وعید حق کہ جب
دشمن زہرا جہنم.کی غذا ہوجائے گا*
 
مل گیا گر قبر کا تیری نشاں اے فاطمہ
میری خاطر منقبت کا یہ صلہ ہوجائے گا
 
معصیت کی راہ سے کترا کے دامن چل کے دیکھ
خودبخود تو بھی محب سیدہ ہوجائے گا
 
وہ سنے گا ادخلوھا اور سلاما کی ندا 
جو رہ زہرا میں اے صائب فنا ہوجائے گا
 
صائب جعفری 
قم مقدس ایران
Jan 13,2023 
7:53 PM
 
*پہلی تضمین ایک آدھ لفظ کے فرق سے محترم احمد شہریار کی تضمین سے ٹکراگئی تھی سو دوسرا تضمینی مصرع کہا...
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 January 23 ، 22:20
ابو محمد
۱. سجاد بے بسی سے آنسو بہا رہے ہیں
زینب کو.ساتھ لے کر بازار آرہے ہیں
 
۲.اللہ خیر کرنا قیدی گذر نہ جائے
مقتل سے لے کے ظالم عابد کو جا رہے ہیں
 
۳.کوٹھوں سے پھینکتے ہیں عابد پہ آگ شامی
اور اہل بیت احمد پتھر بھی کھا رہے ہیں
 
۴.کربل سے تا بہ زنداں زنجیر کے قلم سے
فتح مبیں کا.نقشہ عابد بنا رہے ہیں
 
۵.بعد حسین زینب سجاد اور سکینہ
ایوان شام و کوفہ بے تیغ ڈھا رہے ہیں
 
۶.دین خدا کی خاطر گھر بار سب لٹا کر
ایوب صبر کرنا عابد سکھا رہے ہیں
 
۷.زندان میں سکینہ بابا سے جاملی ہے
سجاد طوق پہنے میت اٹھا رہے ہیں
 
۸.ہر ہر قدم پہ عابد ہر ہر ستم کو سہہ کر
حقانیت کا رب کی نغمہ سنا رہے ہیں
 
۹.لب بند ہیں ابوذر، صائب قلم ہے گریاں
سجاد کے مصائب یوں خوں رلا رہے ہیں
 
 
صائب جعفری
قم المقدسہ
۱۱ محرم ۱۴۴۴
Aug 09,2022 
2:07 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 22 August 22 ، 17:43
ابو محمد

امام علی نقی علیہ السلام کا غالیوں کے ساتھ برتاؤ

مقالہ نگار: سید صائب جعفری

حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران

سال ۲۰۲۲/۱۴۴۳

مقدمہ

 ہمارے آئمہ علیہم السلام کی تمام تر  سیاسی اور سماجی زندگی اسلام دشمن عناصر  کے مقابلہ  میں اسلام کی حفاظت میں گذری۔  آئمہ علیہم السلام چونکہ  کامل انسان ہیں لہذا ان کا قول، فعل اور تقریر الہی اقدار کے بیان پر مشتمل ہے اور باقی انسانوں کے لئے حجت ہے۔ دین پر کاربند ہونے اور سماجی و سیاسی احوال پر توجہ دینا تمام آئمہ کی زندگی کا مشترک طرہ امتیاز ہے۔ 

آئمہ کی زندگی کا ایسا ہی ایک مشترک پہلو غالیوں  اور ضعیف العقیدہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں واضح ہے وہ یہ کہ غالیوں کے بہت سے گروہ امام  محمد باقرؑ اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں دنیا کمانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے آئمہ اہل بیتؑ کی محبت کا دم بھرتے تھے۔ اس کام کے لئے اور اپنے مقصد کو جلد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے عوام الناس کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا اور آئمہ کو مقام نبوت  بلکہ الوہیت تک پہنچا دیا۔ 

اس گروہ کی ان حرکتوں سے نمٹنے کے لئے ہر امام نے اپنے دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا مقابلہ کیا تاکہ ان کی غلط تبلیغ سے اسلام کے دامن کو اور مسلمانوں محفوظ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں امام علی نقی علیہ السلام نے بھی کچھ عمل اقدامات کئے  تاکہ ان غلط عقائد کو کم ترین درجہ تک لے جایا جاسکے اس طرح سے کہ معاشرہ میں کوئی ہرج و مرج کی کیفیت پیدا نہ ہو۔اس کے باوجود بعض مقامات پر امام علیہ السلام کو بہت سختی سے بھی کام لینا پڑا اور کئی مقامات پر آپ علیہ السلام نے اس گروہ سے برأت کا اظہار بھی کیا۔امام ؑ نے ہر موقع پر یہی کوشش کی کہ اسلام اور تشیع کے دامن پر اس منحرف گروہ کی وجہ سے کوئی داغ نہ آئے۔

یہ مقالہ بھی اسی سلسلہ میں تصنیف کیا گیا ہے۔ اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام علیہ السلام کے دور کی سیاسی اور سماجی کیفیت اور حالت کو بیان کرنے کے ساتھ اس دور کے غالیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے اور امام علیہ السلام نے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا اس کی تحقیق کی جائے۔ اس مقالہ میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ واضح کیا جائے کہ امام علیہ السلام نے کس طرح تشیع کی سرحدوں کو تمام منحرف العقیدہ فرقوں کے عقائد سے جدا  کرکے واضح کیا۔

اس  مقالہ کے لئے عربی اور فارسی کتب اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ لہذا حوالہ جات کو اردو تراجم کے صفحات کی بنیاد پر نہ جانچا جائے بلکہ اصل منابع کی جانب رجوع کیا جائے جن کی تفصیلی فہرست مقالہ کے آخر میں درج کی جائے گی۔

مسئلہ کا بیان

خدا وند متعال اور رسول گرامی قدر ﷺ نے اپنے اہل بیتؑ کو  امت اسلامیہ کو انحرافات کے بھنور سے نکالنے کے لئے چنا تھا۔ ان آئمہ کی ہدایت آمیز گفتگو  کو سن  کر اس پر عمل کرنا ہی وہ واحد راستہ جو انسان کو ہدایت یافتہ بنا سکتا ہے۔ 

پیغمبرﷺ اور آئمہؑ کا ایک کلی منصوبہ، اسلام اور عقائد اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت تھا۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے روز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ رسولﷺ کے بعد ہر ایک امام نے اپنے زمانے کی مخصوص شرائط کے اعتبار سے اس منصوبہ کو آگے بڑھایا۔

امام علی نقی علیہ السلام کا زمانہ استبداد اور گھٹن سےمملو تھا۔ حکومتی کارندوں اور جاسوسوں کی ہر وقت کی کارستانیوں کے سبب امام علیہ السلام اسلامی ثقافتی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس لحاظ سے امام نقیؑ کا زمانہ امام باقر اور امام صادقؑ کے زمانے سے زیادہ پرآشوب کہا جاسکتا ہے۔

امام نقیؑ  کے دور کی اہم ترین خصوصیت، امام علیہ السلام کا اپنے دور کے انحرافی فرقوں اور شخصیات کے ساتھ برتاؤ ہے۔ امام ہادی علیہ السلام کا دور امامت قسم قسم کے عقیدتی اور فکری فرقوں کے ظہور کا دور ہے۔ اس دور میں فقہ، اصول، کلام اور تفسیر کے نئے نئے مذاہب رونما ہوئے۔ یہی دور تھا کہ جس میں بہت سے الحادی گروہ بھی ظاہر ہوئے  اور انہوں نے شیعوں کے عقائد کو پوری طرح سے مسخ کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ اس کام کے لئے ان گروہوں نے تفسیر بالرائے اور احادیث میں تحریف کا سہارا بھی لیا۔ ان تمام انحرافی فرقوں سے مذہب حقا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری امام علی نقی علیہ السلام کی کاندھوں پر تھی۔

امام علیہ السلام کے دور میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فساد کی کوششیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔  اس کام میں غالیوں کے فرقہ پیش پیش تھے۔ اسی مقالہ میں ان شاء اللہ ہم  غالیوں کے عقائد اور ان کے فکری تانوں بانوں کی تحقیق کے دوران واضح کریں گے کہ ان کے عقائد اور ان کا کلام اہل بیت کے نورانی کلام کے بالکل خلاف اور اس سے متصادم ہے۔ اپنے عقائد کے پرچار اور اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے سے ان غالیوں کا مقصد سادہ لوح عوام کو اپنی جانب کھینچ کر شیعوں اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا۔

اس مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دئیے جاسکیں۔

۱۔ غالی کون ہیں اور ان کے اہم ترین عقائد کیاہیں؟

۲۔ امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ان غالیوں کی سرگرمیاں کیا تھیں؟

۳۔ امام  علی نقی علیہ السلام نے ان غالیوں سے کس طریقہ سے مقابلہ کیا؟


 

امام نقی  علیہ السلام کے دور کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی  حالات

شیخ کلینی، شیخ مفید، شیخ طوسی اور ابن اثیر کے مطابق، امام نقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت نیمہ ذیحجہ ۲۱۲ ھ۔ق    کو ہوئی (کافی جلد ۱ ص ۵۲، الارشاد صفحہ ۳۲۷، الکامل فی التاریخ جلد۷ صفحہ۱۸۹)۔ خطیب بغدادی نے آپ علیہ السلام کی ولادت  ماہ رجب ۲۱۴ ہجری لکھی ہے( تاریخ بغداد جلد ۲ صفحہ ۵۷)۔ آپ ؑ کی والدہ ماجدہ کا نام سمانہ خاتون تھا جن کو سوسن بھی کہا جاتا تھا اور امام حسن عسکری آپ ہی کے بطن سے تھے( اثبات الوصیہ، صفحہ ۲۲۰، فصول المھمہ صفحہ ۲۷۷)۔ امام  نقی علیہ السلام کو ۲۳۳ ہجری میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہمراہ سامرا منتقل کیا گیا تھا اور  آپ ؑ اپنی شہادت تک سامرا میں ہی مقیم رہے۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 20 July 22 ، 04:21
ابو محمد

*غلو اور شرک سے مملو سبھی افکار پر لعنت*
*تری صوفی گری پر اور ترے اذکار پر لعنت*

*ہو رحمت کی فراوانی غلامانِ ولایت پر*
*جسے سید علی کَھلتا ہو اس بدکار پر لعنت*

*ولایت کا تسلسل ہے ولایت خامنہ ای کی*
*اسے تقصیر کہنے والے ہر مردار پر لعنت*

*کمیت و حمیری، دعبل سے مداحوں پہ رحمت اور*
*جو بھونکے عالموں پر ایسے بدبودار پر لعنت*

*علی کے سچے عاشق سیستانی خامنہ ای ہیں*
*جو ان سے بیر رکھے ایسے استعمار پر لعنت*

*سلام ان مومنوں پر جو رہِ حیدر پہ ہیں، لیکن* 
*مقصر، غالی اور ان کے ہر اک حب دار پر لعنت*

*جہاں چرسی موالی اور نُصیری پیر کہلائیں*
*ہو ایسی فکر اور اس فکر کے معمار پر لعنت*

*یہ فن شاعری ہے اک امانت حضرت حق کی*
*خلاف حق جو برتے اس خیانت کار پر لعنت*

*سبب ترویج حق کا ہے وجود نائب مہدی*
*تو پھر صائب دکھاوے کے ہراک دیں دار پر لعنت*

صائب جعفری
Feb 18,2022 
2:32 AM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 18 February 22 ، 02:59
ابو محمد

قم مقدس ایران میں طرحی محفل مقاصدہ منعقدہ ۱۲ رجب ۱۴۴۳ میں پیش کیا گیا کلام

 

پرجبرئیل قلم ہوا بنا میرا قلب دوات ہے
ہوئی روح صفحۂ منقبت کہ رجب کی تیرہویں رات ہے

یہ جو بیت حق میں سنا رہا ہے نبی کی گود میں آیتیں
یہی ذات حق کا ہے آئینہ یہی جلوہ گاہ صفات ہے

شہ لافتی نے ہبل کو جب کیا خاک عزی کے ساتھ تب
پئے انتقام خود آدمی ہوا لات اور منات ہے


جو علی کے عشق میں ڈھل سکے جو علی پلڑے میں تل سکے 
وہ ہے صوم صوم حقیقتا وہ صلاۃ ہی تو صلاۃ ہے

یہ جو باطلوں کا ہجوم ہے مجھے اس کا خوف نہیں کوئی
ترے راستے پہ ہوں گامزن مرا فیصلہ ترے ہاتھ ہے

میں رہ نجات تلاشتا تھا یہاں وہاں تو کھلا یہ راز
جو علی کی یاد میں ہو بسر اسی شب کا نام.نجات ہے

مرا دھن ہے عشق ابوتراب مرا خوں بہے سر کارزار
تو میں جان لوں کہ  ادا ہوئی مرے مال کی بھی زکات ہے

کبھی پڑھ کتاب وجود کو تو کھلے گا تجھ پہ ورق ورق 
کہیں مصطفیٰ کے ہیں تذکرے کہیں بوتراب کی بات ہے

نہیں کچھ عمل مرے پاس پر ہے مجھے یقیں ترے فیض سے
مری شاعری تری منقبت ہوئی داخل حسنات ہے

جو اضافتوں میں الجھ گیا اسے صائب اسکی خبر نہیں
کہ علی ولی کی صراط پر یہ جو موت ہے یہ حیات ہے

صائب جعفری
قم ایران
Feb 14,2022 
2:34 AM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 15 February 22 ، 17:11
ابو محمد

محترم جناب حیدر جعفری صاحب کے دولت کدہ پر منعقدہ بزم استعارہ کی ہفتہ وار شعری نشست اور طرحی منقبتی محفل میں پیش.کئے گئے اشعار

 

کرنی ہے مجھ کو آپ کی مدح و ثنا تقی
مجھ پر بھی باب علم کو کردیجے وا تقی

صورت میں یہ تجلئ پروردگار ہیں
سیرت میں ہو بہو ہیں شہ انبیا تقی

منزل ہے علم کی یہاں سن کا نہیں سوال
یحیی ہیں ورثہ دار شہ لا فتی تقی

سمجھا رہا ہے دہر کو معنئ عشق ناب
وہ فاطمہ کی یاد میں رونا ترا تقی

میں نے اترتے دیکھے فرشتوں کے طائفے
مشکل گھڑی میں.جب بھی پکارا ہے یا تقی

قم.میں سلام.کرتا ہوں بی بی.کو جاکے میں
دیتے ہیں کاظمین میں مجھ کو دعا تقی

دنیا کی نعمتوں کی طلب اپنی جا مگر
ہے گوہر مراد تمہاری ولا تقی

درکار کب غلام کو نام و نمود ہے
تمغہ ہے اس کے واسطے تیری رضا تقی

پیکار کر رہا ہوں جو عالم.نماؤں سے
پایا ہے اس کا آپ ہی سے حوصلہ تقی

یہ فیصلہ خدا کا ہے مصرع نہیں فقط
ہوتا رہے ہمیشہ ترا تذکرہ تقی

جائے گا پیش کبریا صائب بھی ایک دن
نقش قدم پہ آپ کے چلتا ہوا تقی

صائب جعفری
قم.ایران
Feb 12,2022 
4:47 PM

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 February 22 ، 00:05
ابو محمد
بہاروں کی ہے رت موسم ہے عالم میں گلابوں کا
چلو رندوں چلو پھر ذکر ہم.چھیڑیں شرابوں کا
 
مرجب اور معظم ہیں اسی خاطر یہ دونوں ماہ
زمیں پر ان میں اترا ہے قبیلہ آفتابوں کا
 
علاج ظلمت و تحصیل رحمت کے.لئے ہردم
کریں ہم تذکرہ اب فاطمہ کے ماہتابوں کو
 
بدل کر جنگ کے انداز اور ہتھیار کو اصغر
سنوار آئیں ہیں ہنس ہنس.کر مقدر انقلابوں کا
 
رہے اسلام زندہ کفر ہو عالم میں شرمندہ
خلاصہ ہے یہی حق کے صحیفوں کا کتابوں کا
 
کئے تھے راہ گم جس دم علی کے چاہنے والے
خمینی نے دکھایا راستہ تب کامیابوں کا
 
عدالت اور ولایت کا سبق دے کر زمانے کو
خمینی نے بنایا شاہ کو قصہ حبابوں کا
 
 
توکل اور توسل کیجئے ظالم سے مت ڈریے
حسین ابن علی.کا خوں ہے ضامن انقلابوں کا
 
علی کا نام لے جو جو رکھیں سید علی سے بیر
وہ ایسے پیاسے ہیں پیچھا جو کرتے ہیں سرابوں کا
 
عمل سے خود کو ثابت کیجئے علامہ مولانا
نہیں کچھ فائدہ ورنہ لباسوں کا خطابوں کا
 
فراق و ہجر کی سختی میں کیف عشق کی مستی
مزہ لیتا ہے دل  یوں بھی عذابوں کا ثوابوں کا
 
ہماری آنکھ پر ہردے پڑے ہیں تم.نہیں غائب
کہاں تک جائے گا یہ سلسلہ دیکھیں حجابوں کا
 
ہو میرا نام بھی مثل اویس مصطفی لکھا
مرتب ہو اگر محضر کسی دن باریابوں کا
 
سیہ رو ہیں مگر محشر میں پیش خلق دوعالم
بھرم رکھ لینا اے مولا ہمارے انتسابوں کا
 
میں اکثر دیکھتا ہوں خوں کے دریا سے ابھرتا شمس
کوئی مطلب یقینا ہوگا صائب میرے خوابوں کا
 
صائب جعفری
قم ایران
Feb 11,2022 
2:08 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 11 February 22 ، 21:54
ابو محمد
خمین ایران میں بزم.استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں.مصرع دیا گیا *ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں* دیا گیا. مقررہ وقت میں تو بس چار شعر ہو سکے تھے بعدہ جب سونے لیٹے تو بلا تفریق زبان و عمر تمام احباب کے فلک شگاف *خراٹوں* نے جب سونے نہ دیا تو کچھ اور شعر بھی ہوگئے سو پیش خدمت ہیں
 
 
کون؟ وہ اور غم بٹانے جائیں
ہاں یہ.ممکن ہے دل دکھانے جائیں
 
راستہ کون روک سکتا ہے
وہ کسی کو اگر جلانے جائیں
 
ہے اسی فکر میں ہراک انساں
طعن کے نیزے کس پہ تانے جائیں
 
اب نہ گل ہے نہ بلبلیں نہ درخت
بات دل کی کسے سنانے جائیں
 
ہم قدامت پسند دیوانے
جائیں کیسے جہاں زمانے جائیں
 
ہے عبث کام پر یہ کرتے ہیں
حسن کو عاشقی سکھانے جائیں
 
کاش کوئی نہ ہو سر محشر
حاصل عشق جب اٹھانے جائیں
 
گر  طبیبوں کے بس کا روگ نہیں
زخم جلاد کو دکھانے جائیں؟
 
اس لئے کنج میں پڑا ہوں چپ
گیت بہروں کو کیا سنانے جائیں
 
ہوگیا ہے یہ حکم بھی صادر
آگئے ہیں نئے پرانے جائیں
 
تیرے دل سے نکالے جانے کے بعد
ہم.کہاں قسمت آزمانے جائیں
 
کاش یہ کہہ سکیں کبھی ہم.بھی
ہم.کو.خواہش نہیں کہ جانے جائیں
 
جملے گھڑ لینا کچھ کمال نہیں
شعر ایسے تو ہوں کہ مانے جائیں
 
سوچتے ہیں یہ شوخ پروانے
کس طرح شمع کو.بجھانے جائیں
 
ہم ہیں روٹھے ہوئے مگر صائب
سوچتے ہیں انہیں منانے جائیں
 
 
صائب جعفری
۴ فروری ۲۰۲۲
خمین ایران
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 07 February 22 ، 01:00
ابو محمد
 

انجمن ادبی اقبال لاہوری(قم مقدس) کی پندرہ روزہ نشست میں پیش *نہ کی گئی طرحی منقبتی غزل* 

بیان عشق شمائل اگر ضروری ہے
شعور شعر بھی غافل بصر ضروری ہے

اگرچہ کرنا ہے اعلان وحدت حق.کا
ہزار رنگ کی.محفل.مگر ضروری ہے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
غزل کو اوج فضائل کا گھر ضروری ہے

یہ راہ عشق ہے ہرگام پر دعا کیجے
بہک نہ جائے کہیں دل حذر ضروری ہے

یہ عشق عاشق و معشوق ایک ہیں لیکن
یہ بات سہنے کو قابل نظر  ضروری ہے

سکوت بحر سے کشتی ہے پرسکوں لیکن
برائے ارزش ساحل بھنور ضروری ہے

جو  پیش ہونے کی خواہش ہے زیر سایہ نور
تو ہونا نفس پہ کامل زبر ضروری ہے

یہ کیاضرور کہ بہر حجاب چلمن ہو
ہو.جلوہ آپکا حائل اگر ضروری ہے

وہ کیوں نہ ہونگے مری سمت ملتفت یارو...
ہے مدعائے دعا دل اثر ضروری ہے

دعا ظہور کی کرتے ہوئے سوئے کعبہ
"چلو کہ جانب منزل سفر ضروری ہے"

سوال وصل عجب سخت مرحلہ ٹھہرا
یہاں پہ خود سے بھی سائل گذر ضروری ہے

نگاہ عقل میں گر، یہ جنوں ہے ہو.لیکن
تمہارے قدموں.میں بسمل.کا سر ضروری ہے

بہ مرز گور رساند فراق عاشق را
کہ ہجر زہر ہلاہل ہے پر ضروری ہے

طلب ہے عشق میں گر خیر کی تو پھر صائب
ذرا سا دار و سلاسل کا شر ضروری ہے

صائب جعفری

صائب جعفری
۲ اگست ۲۰۲۱
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:29
ابو محمد
وجود خدا کی بنا جو دلیل امیری حسین و نعم الامیر
خدا کا جو مظہر ہوا بے عدیل امیری حسین و نعم الامیر
 
فقط یہ نہیں نوع انساں کی بات یہ آواز ہے نغمۂ ممکنات
جوسنتے ہو کہتے ہیں یہ جبرئیل امیری حسین و نعم الامیر
 
لہو رنگ صحرا وہ شدت کی پیاس پکارے اے سید اے دیں کی اساس
تمہی خلد و کوثر ہو تم سلسبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
پئے دوستان خداوند مہر پئے دشمنان خداوند قہر
یہ ہیں معنئ عرش رب جلیل امیری حسین و نعم الامیر
 
وہ ہنگام سجدہ کے راز و نیاز کھلا جس سے خلق خدا پر یہ راز
ہے رب تک پہنچنے کی تنہا سبیل امیری حسین و نعم الامیر
 
شہیدوں کو وہ روز تھا روز عید شہادت یہ دیتا تگا ہر اک شہید
تیرا قول حق ہے اے ابن عقیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تسلط کئے تھی جو باطل کی فوج ہے نوحہ کناں آج تک موج موج
فرات اور دجلہ ہیں تیرے علیل امیری حسین و نعم الامیر
 
تیرے غم کی مجلس کا ہے یہ کمال ملک اشک موتی میں دیتے ہیں ڈھال
سبیلوں میں ہے پرتوے سلسبیل امیر حسین و نعم الامیر
 
ہدایت بسوئے صراط حمید یہ طوبیٰ لھم کی نمایاں نوید
اسی کے ہیں جو کہہ دے بے قال و قیل امیری حسین و نعم الامیر
 
جواں سال میت یا لاش صغیر احباء کا غم ہو یا فاقوں کے تیر
تأسّی میں تیری مصائب جمیل امیری حسین و نعم الامیر
 
 
جو عشق صمد کا ہے صائب سفیر وہی میرا مولا وہی میرا پیر
وہی جس کو اشکوں کا کہئے قتیل امیری حسین و نعم الامیر
 
صائب جعفری
قم ایران
۵ جولائی ۲۰۲۰
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 22 ، 00:16
ابو محمد

عزیز رہبر ملت سلام ہو تم پر
نقیب لشکر حجت سلام ہو تم پر

نصیب ہر کس و ناکس کو کب ہے یہ رفعت
اے انتخاب شہادت سلام ہو تم.پر

تمہارے نام سے لرزاں ہے اب بھی کفر کا جسم
مجاہدین کی ہیبت سلام ہو تم پر

ریاض عشق کے پودوں کی آبیاری کو
ہوئے ہو خون میں لت پت سلام ہو تم پر

صراط حیدر کرار پر بڑھاتے قدم
چلے گئے سوئے جنت سلام ہو تم پر

لہو سے اپنے پھر اک بار تم نے کر ڈالا
نصیب کفر ہزیمت سلام ہو تم پر

رہ امام دکھانے کو بن گئے قاسم
چراغ راہ ہدایت سلام ہو تم پر

دعا ہے صائب خستہ جگر کو مل.جائے
تمہارے پہلو میں تربت سلام ہو تم پر

صائب جعفری
۱۵ نومبر ۲۰۲۰
قم ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:33
ابو محمد
رافت کا محبت کا ہے یم بھی سلیمانی
اور عشق ولایت کا عالم بھی سلیمانی
 
اسلام کے دشمن کو پیغام اجل بھی ہے
اسلام کے لشکر کا ہمدم بھی سلیمانی
 
مظلوموں کی خوشیوں کا باعث تھا جہاں بھر میں
اور ٹوٹے دلوں کا تھا مرہم بھی سلیمانی
 
تفسیر اشدا کی شرحِ رحما یعنی
شعلہ بھی سلیمانی شبنم بھی سلیمانی
 
تھا ابن حسن قاسم اس نام کی نسبت سے
پامالئ تن کا تھا محرم بھی سلیمانی
 
نازاں ہے بہت تیرے بازوئے بریدہ پر
انگشت میں رہبر کی خاتم بھی سلیمانی
 
مالک بھی شجاعت پر تیری کر اٹھے اش اش
دیتے ہیں تجھے تحسیں میثم بھی سلیمانی
 
ہے فخر ہمیں تیری جرأت پہ بہت لیکن
ہے دل میں بپا تیرا ماتم بھی سلیمانی
 
صائب یہی حسرت ہے اے کاش کہ.ہوجائیں
تقدیم ترے قدموں پر ہم.بھی سلیمانی
 
صائب جعفری
قم المقدس
Dec 14,2021 ـ
2:36 PM
۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:31
ابو محمد

موسسہ تنظیم و نشر آثار امام.خمینی علیہ الرحمہ کی جانب خمین ایران میں منعقدہ شب شعر بعنوان "خمینیون" میں پڑھا گیا کلام
مورخہ ۳ فروری ۲۰۲۲(۱ رجب ۱۴۴۳/ ۱۴ بھمن ۱۴۰۰)

کفر کی تاریک شب کا دور تھا
زنگ تھا دیں پر چڑھا الحاد کا

دین کی بستی میں دیں مفقود تھا
علم بس صفحات تک محدود تھا

بے حیائی کوچہ کوچہ عام تھی
شرم و عفت مورد الزام تھی

امت خاتم کھڑی تھی بے اماں
تھی محمد کی شریعت نیم جاں

غرق تھی اپنے جنوں میں سلطنت
ہر طرف گاڑے تھی پنجے شیطنت

پاک و پاکیزہ زمیں ایران کی
کافروں کے کھیل کا میدان تھی

کفر کی اور شرک کی تھیں مستیاں
حق بیاں کرنے پہ تھیں پابندیاں

تھا یہ استکبار عالم کا خیال
بالیقیں اسلام ہوگا پائمال

ایسے میں اک سید و سردار نے
دشمنوں کو دین کے للکار کے

دھر کو اک بار پھر سمجھا دیا
غیب کی امداد کا مطلب ہے کیا

علم کو اس نے عمل میں ڈھال کر
دے دیا مظلوم آہوں کو اثر

یاعلی مولا مدد کے زور پر
دشمنوں کو کر دیا زیر زبر

ظلم اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا
کاخ کفر و شرک سارا ڈہ گیا

انبیائے ما سلف کا تھا یہ خواب
نام ہے جسکا خمینی انقلاب

تازگی دی اس نے ہی اسلام کو
دی حیات جاوداں احکام کو

ظلم و استبداد کو دے کر شکست
ظالموں کے قد کئے ہیں تو نے پست

السلام اے مرد مومن السلام
بت شکن حضرت خمینی اے امام

انقلاب حق کے ہمرہ اب مدام
تا ابد زندہ رہے گا تیرا نام

انقلاب حضرت مہدی کے ساتھ
متصل ہوکر یہ پائے گا ثبات

صائب جعفری

Feb 03,2022 
8:24 PM 
خمین ایران

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 04 February 22 ، 21:24
ابو محمد

حسینیہ امام صادق علیہ السلام قم اہران میں غدیر کی.طرحی محفل کے لئے لکھے اور پڑھے گئے اشعار احباب کی نذر

معراج ابتدائے کتاب غدیر ہے
عاشور اک ثبوت صواب غدیر ہے
نشاۃ ہے ثانی خم کی یہ عابد تا عسکری
صبح ظہور عین شباب غدیر ہے
مزمل اور طاھاویاسین کے لئے
*"یا ایھاالرسول خطاب غدیر ہے"*

ــــــــــــــــــــ
اے میرے بابا علی ہم یہ دھیان رکھتے ہیں
ترے عدو پہ تبرا کی ٹھان رکھتے ہیں

بنام سجدہ جبیں پر علی کے سب مجذوب
غدیر خم.کا سجائے نشان رکھتے ہیں

یہی ثبوت ہے کافی طہارت دل کا
کہ دل میں کعبہ کا دل میہمان رکھتے ہیں

برای زیست علی والے مرتضی.کی طرح
اک.امتحان پس از امتحان رکھتے ہیں

یہ اور بات کہ چپ سادھے ہیں پئے وحدت
یہ اور بات کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں

طلوع صبح ظہور اور حشر کی خاطر
*"ہم اپنے پاس غدیری اذان رکھتے ہیں"*

غلو کا فتوی لگا دیجئے مگر کہئے
شعور شعر بھی کچھ بھائی جان رکھتے ہیں

جناب طائر سدرہ پرندگان غدیر
ورائے سرحد سدرہ اڑان رکھتے ہیں

علی کی مدح کے طائر اڑان بھرنے کو
زمین شعر پر لا آسمان رکھتے ہیں

گہے غدیر پہنچ جاتے ہیں گہے کعبہ
ہم اختیار میں اپنے زمان رکھتے ہیں

ہوا کے دوش پہ رکھ دیتے ہیں بنام علی
چراغ جان کے لئے کب مچان رکھتے ہیں

صد آفرین یہ پیران ملک عشق و وفا
مئے غدیر سے دل کو جوان رکھتے ہیں

علی کے عشق کے صدقے ہم ایسے خانہ بدوش
اٹھائے گٹھری میں سارا جہان رکھتے ہیں

جہاں پہ بارہ.مہینے بہار رہتی ہے
غدیر جیساہم اک گلستان رکھتے ہیں

زمیندار کہاں کوئی ہم سا صائب ہم
ہر ایک بیت کے بدلے مکان رکھتے ہیں

۲۸ جولائی ۲۰۲۱

۱ نظر موافقین ۲ مخالفین ۰ 29 July 21 ، 01:25
ابو محمد

جمعرات ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو بزم استعارہ کی ہفتہ وار نشست میں فی البدیہہ کہے گئے اشعار

مصرع طرح: *موسم گل تلک رہے گا کون*
نوٹ مطلع اور مقطع نشست کے بعد احمد.شہریار صاحب کے گھر سے اپنے غریب خانے جاتے ہوئے کہے


عشق کے گیت اب لکھے گا کون
نغمہ.ہائے وفا سنے گا کون

خفتہ خاک یہ بھی بتلا دے
 میرے کاندھے پہ سر دھرے گا.کون

خواب میں دیکھ لی تری صورت
اب ترے وعدے پر جئے گا کون

آگے بالوں میں ہے خزاں اتری
موسم گل تلک رہے گا کون

تھک گیا ہوں میں.خود کو.ڈھوتے ہوئے
دور تک ساتھ اب چلے گا کون

بھوک نغمہ سرا ہے اب گھر گھر
غزلیں کوٹھوں کی اب سنے گا کون

حسن پر مفلسی کے سائے ہیں
فی البدیہہ اب غزل کہے گا کون

 راس خانہ بدوشیاں آئیں
گھر ملا بھی تو اب بسے گا کون

ہے غنیمت میں صرف رب تو بتا
جنگ میدان میں لڑے گا کون

جانتا ہے یہ صائب دلگیر
وہ نہ ہوگا تو پھر ہنسے گا کون

۱۵ جولائی ۲۰۲۱
۱۰:۱۵ شب
شہر قائم قم ایران

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 13 July 21 ، 01:01
ابو محمد

عزاداروں سے خطاب
(بشکل مثنوی)

سرخئِ خون شفق نے یہ افق پر لکھ دیا
اے زہے قسمت کہ پھر درپیش ہے شہ کی عزا

۱ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 16 August 20 ، 15:47
ابو محمد

:

*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*

مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 10 May 20 ، 01:12
ابو محمد