کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

 منقبت

اگر آل محمد سے محبت ہو نہیں سکتی

تو پھر فکر و عمل کی بھی طہارت ہو نہیں سکتی

جبیں سجدے کرے لاکھوں کسی کے آستانے پر

نہ جھک پائے اگر دل تو عقیدت ہو نہیں سکتی

قدم ہیں جانب کعبہ رواں دل میں صنم خانہ

یہ دھوکہ ہو تو سکتا ہے عبادت ہو نہیں سکتی

خدا حق ہے نبی حق ہیں علیِ مرتضیٰ حق ہیں

یہ حق ہے دشمنِ حق کی شفاعت ہو نہیں سکتی

نبی سے رشتہ داری چاہے کیسی ہی قریبی ہو

خفا ہوں فاطمہ تو پھررفاقت ہو نہیں سکتی

لبوں پر یا علی دل میں بغضِ آلِ پیغمبر

یہ نفرت کا قرینہ ہے محبت ہو نہیں سکتی

علی کے  غیر سے جس نے معانی دین کے سمجھے

ملے اس کو ضلالت ہے ہدایت ہو نہیں سکتی

مَرا جو عشق حیدر میں شہیدوں میں ہوا شامل

منافق کی قضاء لیکن شہادت ہو نہیں سکتی

ق

یہ اک ادنیٰ سا نکتہ کیا محمد سے تھا پوشیدہ

نہ ہو ہادی تو امت کی ہدایت ہو نہیں سکتی

لگا بیٹھے ہیں جو اس طرح کی تہمت نبوت پر

یقیں ہے مجھ کو ایسوں کی شفاعت ہو نہیں سکتی

بڑھانے کو ثلاثہ کے نبی کو کر دیا کم تر

ہے وائے واعظوں تم سے عدالت ہو نہیں سکتی

نہ مانا مصطفیٰ کے جانشینوں کو مسلماں نے

تو مجرم خود مسلماں ہے رسالت ہو نہیں سکتی

ہوا کرتا ہے دل کا آئینہ چہرہ مگر محسن

کبھی تصویر عکاسِ حقیقت ہو نہیں سکتی

۳ جون ۲۰۰۴ کراچی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی