کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

نوحہ

نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں

پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں

فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں 

سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں

یک بیک زینب سےیہ کرنے لگی بچی سخن

آئے تھے بابا مرےبتلائے وہ ہیں کہاں

طشت میں رکھا ہوا آیا جو سر شبیر کا

منہ پہ منہ رکھ کر ہوئی بےجاں سکینہ نیم جاں

ہائے غربت قبر بھی اس کو ملی زندان میں

باپ کا سینہ ملا جس کو نہ ماں کی لوریاں

ایک قیدی سوچتا ہے اشک برساتے ہوئے

قبر میں میت اتارے یا سنبھالے بیڑیاں

کربلا سےشام تک جو  رو نہ پائی باپ کو

قبر میں شاید وہ کھل کر رو لے ہوکر نوحہ خواں

لے چلی ہے قبر میں شبیر کی لختِ جگر

خوں میں ڈوبا پیرہن رخسار نیلے سسکیاں

آج تک صائب ہیں امت کے مظالم کے گواہ

اس کے زخمی کان اور زہرا کی ٹوٹی پسلیاں

۱ جون ۲۰۱۹ شب ۲ بجے

 

 

مصرع پڑھ رہی تھیں اناللہ قید میں سب بییاں مجھے حجت الاسلام واجد علی رضوی قمی نے دیا تھا انہی کے امر کی بجا آوری میں یہ چند مصرعے موزون کئے ہیں..

 

نظرات  (۱)

01 June 19 ، 03:31 ناشناس
ہائے حسین علیہ السلام کی چار سالہ یتیمہ 

پاسخ:
.......

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی