ایسا کچھ سلسلہ بھی ہو جائے(منقبت)
۔منقبت
ایسا کچھ سلسلہ بھی ہوجائے
بے نواء لب کشا بھی ہو جائے
سہل یہ راستہ بھی ہو جائے
گر دعا مدعا بھی ہوجائے
شعر وہ ہے جہاں خیال کے ساتھ
شامل ان کی رضا بھی ہو جائے
ہم کریں گے ہمیشہ حق کی بات
چاہے کوئی خفا بھی ہوجائے
اپنا سید علی سے رشتہ رہے
ساری دنیا جدا بھی ہو جائے
قافلہ عشق کا رہے گا رواں
عشق چاہے سزا بھی ہو جائے
شعر گوئی تو اک بہانہ ہے
تا رقم کچھ ثنا بھی ہوجائے
کربلا ختم ہو نہیں سکتی
گرچہ دنیا فنا بھی ہو جائے
ہے وہ اصغر جو بے زبانی میں
خلق کا رہنما بھی ہو جائے
کب یہ امکان میں رہا ممکن
تجھ سا معجز نما بھی ہوجائے
ساتھ ذبحِ ٰعظیم کے شہ کی
نذر کا تذکرہ بھی ہو جائے
تیری مسکان کی نہیں قیمت
سارا عالم فدا بھی ہوجائے
تیری بو پا کے بولی کرب و بلا
زعمِ باطل فنا بھی ہو جائے
تیرِ سہ شعبہ اور ششماہا
آج یہ معرکہ بھی ہوجائے
آستینیں الٹ کے بولا صغیر
جنگ کا فیصلہ بھی ہو جائے
مسکراتا رہوں گا میں چاہے
ظلم کی انتہا بھی ہو جائے
مسکرا کر یہ حرملہ سے کہا
امتحاں اب ترا بھی ہو جائے
آج ثابت علی کے اصغر کا
جراءت و حوصلہ بھی ہو جائے
اور گلو کے لہو سے اصغر کے
سرخرو کربلا بھی ہو جائے
مجھ میں اکبر میں کوئی فرق نہیں
راز یہ برملا بھی ہو جائے
تو رہے گی رہینِ تشنہ لبی
آب گر علقمہ بھی ہو جائے
تیری دہلیز پر کروں سجدے
زندگی گر قضا بھی ہو جائے
جانِ نرجس پئے علی اصغر
حق سے باطل جدا بھی ہو جائے
دیجے یاسین کو جو مانگا ہے
کچھ طلب سے سوا بھی ہو جائے
ہو کرم آپ کا تو صائب کی
خاک خاکِ شفا بھی ہو جائے
۶ اپریل ۲۰۱۷ قم المقدس