*ما رأیت الا جمیلا*
جمال حق کی نشاں دہی ما رأیت الا جمیلا
ہے کربلا کا نچوڑ بھی ما رأیت الا جمیلا
یہ راہ حق ہے جزع فزع سے بچا کے ایماں محبوں
مثال زینب کہو سبھی ما رأیت الا جمیلا
حسین کی لاش پر جو پہنچی وہ درد و غم کی ستائی
تو گر کے لاشے پہ کہہ اٹھی ما رأیت الا جمیلا
وہ کربلا خاک و خوں کا دریا جہاں قضا چار سو تھی
وہیں عبارت یہ تھی لکھی ما رأیت الا جمیلا
عطش کی شدت سے قصر باطل تو ڈہ چکا تھا کبھی کا
سوال بیعت کی موت تھی ما رأیت الا جمیلا
بچا کے لائی جو بعد قتل حسین عابد کو زینب
پکارے ہوں گے یہی نبی ما رأیت الا جمیلا
وہ جلتے خیموں کے درمیاں بھی نماز شب پڑھ رہی ہے
اور اس کی چادر ہے چاندنی ما رأیت الا جمیلا
جمی تھی عرصے سے روئے اسلام پر بنام خلافت
وہ گرد زینب نے صاف کی ما رأیت الا جمیلا
علی کی بیٹی علی کے لہجے میں لب کشا جب ہوئی تو
محل میں گونجی صدا یہی ما رأیت الا جمیلا
ہیں شام و کوفہ میں کربلا میں یوں محو نظّارہ حق
کہ سانس بھی ہے پکارتی ما رأیت الا جمیلا
سناں پہ سب اقربا کے سر تھے بدن تھے ریگ تپاں پر
مگر سخن تھا یہ زینبی ما رأیت الا جمیلا
وہ شام شر وہ دمشق الحاد تھا جسے تو نے زینب
بنا دیا شہ کا ماتمی ما رأیت الا جمیلا
تمہارا مرہون منت اسلام آج بھی کہہ رہا ہے
یہ کہنا ہمت تھی آپ کی ما رأیت الا جمیلا
ِ ہمیں بھی بنت نبی کی صورت یہ کہنا ہے آج صائب
خوشی کا مو قع ہو یا غمی ما رأیت الا جمیلا
صائب جعفری
قم ایران
Aug 24,2021
8:50 PM
ہے دین کا سرمایہ ھیھات مناالذلہ
پیغام ہے کربل کا ھیھات مناالذلہ
شہ نے سوال بیعت کہہ کر یہی ٹھکرایا
ہم ہیں نبی کا کنبہ ھیھات مناالذلہ
چاہے کٹے گھر سارا قیدی بنے سب کنبہ
ظالم سے ہے ٹکرانا ھیھات منا الذلہ
سن حاکم یثرب مثلی لا یبایع مثلہ
کہہ دے خلیفہ سے جا ھیھات مناالذلہ
شب بھر رہے گا قیدی پر صبح دم آئے گا
حرِّ دلاور کہتا ھیھات مناالذلہ
وہ عصر کا ہنگامہ شبیر کا وہ سجدہ
بے نطق ہی.کہتا تھا ہیہات مناالذلہ
گو سخت وہ منزل تھی شبیر نے پر سر کی
بیٹا تھا اربا اربا ھیھات مناالذلہ
شش ماہہ تھا پیاسا تھا سوکھا گلہ لایا تھا
پر تیر تھا سہ شعبہ ھیھات مناالذلہ
شبیر کی نصرت میں شیر خدا کا ضیغم
شانے کٹا کر بولا ھیھات مناالذلہ
احلی عسل سے جسکو تھی موت وہ قاسم بھی
میدان میں ہے بکھرا ھیھات مناالذلہ
جون و حبیب و مسلم کلبی بریر و حجاج
شہ کا بنے ہیں فدیہ ھیھات مناالذلہ
عون و محمد قاسم عباس اکبر اصغر
اک اک کا دیکھا لاشہ ھیھات مناالذلہ
انصار شاہ دیں کے بے دم.پڑے ہیں رن.میں
شہ رہ گئے ہیں تنہا ھیھات منا الذلہ
خنجر لئے اک ظالم سوئے نشیب آتا ہے
سرور ہیں محو سجدہ ھیھات مناالذلہ
شبیر کی.گردن پر ضربیں لگاتا ہے شمر
اور دیکھتی ہے بہنا ھیھات مناالذلہ
نوک سناں پر شہ کے سر نے کیا ہے اعلاں
آ دیکھ لے اے دنیا ھیھات منا.الذلہ
دربار میں کوفہ کے اور شام کے محلوں میں
زنجیر کا تھا ںغمہ ھیھات من الذلہ
اعلاں ہےفتح سرور کا شام اور کوفہ میں
بنت علی کا خطبہ ھیھات منا الذلہ
دریا کنارے رن میں خون و عطش سے دیکھو
ہارا ہےباطل ہارا ھیھات منا الذلہ
عزت خدا کی ہے بس سن اے بن مرجانہ
ذلت ہے تیرا حصہ ھیھات منا الذلہ
مقتول باعزت ہے قاتل ذلیل و رسوا
یہ فیصلہ ہے رب کا ھیھات مناالذلہ
سرور تو سرور تھے پر بچوں سے بھی ظالم تو
بیعت نہیں لے پایا ھیھات مناالذلہ
ہم ہیں علی کے پیرو شبیر کے خادم ہیں
سو اپنا بھی ہے نعرہ ھیھات منا الذلہ
کیا خوب ہے اے صائب تلخیص عاشورا کی
شبیر کا یہ جملہ ھیھات منا.الذلہ
صائب جعفری
۲ محرم الحرام ۱۴۴۳
Aug 11,2021
10:09 PM
قم ایران
انجمن ادبی اقبال لاہوری کی جانب سے پندرہ روزہ طرحی شعری نشست بعنوان "مشق سخن" محترم احمد شہریار صاحب کی زیر سرپرستی قم ایران میں منعقد ہوتی ہے اس بار مصرع طرح: "تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں" تھا جس.پر خاکسار نے بھی کچھ اشعار موزوں کئے وہ احباب کی.نذر کرتا ہوں.
دنیا سمجھ رہی ہے کہ دھوکا ملا ہمیں
صد شکر کہ حسین.کا سودا ملا ہمیں
ڈوبے ہیں انبساط کی چاہت میں زر پرست
اور ہم.ہیں خوش حسین پہ رونا ملا ہمیں
آسان منزلیں ہوئیں غیب و شہود کی
نام علی سے جونہی سہارا ملا ہمیں
اخلاص کی مثال جو ہم.ڈھونڈنے چلے
تو فاطمہ کے لعل کا سجدہ ملا ہمیں
علم و عمل کے سائے میں عرفان کردگار
کرب و بلا کے دشت میں.یکجا ملا ہمیں
بیچا ہے عشق شاہ کے بدلے میں.نفس کو
بس اس معاملے.میں نہ گھاٹا ملا ہمیں
پیاسے بھٹک رہے تھے سرابوں کے درمیاں
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"
خون حسین نے کیا سیراب اس طرح
پھر کربلا میں کوئی نہ پیاسا ملا ہمیں
مانگی بہار خلد تو از جانب خدا
عباس کے علم کا پھریرا ملا ہمیں
رومال فاطمہ کی ہیں زینت ہمارے اشک
کیسا گراں.بہا یہ اثاثہ ملا ہمیں
غازی کو آتا دیکھ کے کہنے لگے عدو
کاندھوں اپنے اپنا جنازہ ملا ہمیں
دنیا کے درد و غم سے رہائی کے واسطے
لبیک یاحسین وظیفہ ملا ہمیں
فرش عزا پہ آؤ تو خود جان جاؤ گے
کیسے خدا کی خلد کا رستہ ملا ہمیں
اللہ نبی علی و جناں حریت وفا
اک کربلا سے دیکھئے کیا کیا ملا ہمیں
دل کو طواف حج کی سعادت بھی مل گئی
جب نقش پا میں آپ کے کعبہ ملا ہمیں
صائب فقط فرات کا ساحل ہے وہ جہاں
شمس و قمر کا نور اکھٹا ملا ہمیں
صائب جعفری
۱۸ جولائی ۲۰۲۱
قم ایران
- نوحہ
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
تابہ فلک گونج اٹھی روح الامیں کی صدا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
زینب و کلثوم نے پھینک دی سر سے ردا
کوفہ شدہ کربلا قَدْ قُتِلَ الْمُرْتَضَیٰ
نوحہ/حکایت
میں نے بابا سے کہا کیجے حکایت بابا
عہدِ رفتہ کسی بچے کا کہئے قصہ
بولے بابا کہ ہے یہ ذکر بہت پہلے کا
ایک بچہ تھا جو خیمے میں تھا گریاں پیاسا
نوحہ
نوحہ خواں فرشِ زمیں گریہ کناں تھا آسماں
پڑھ رہی تھیں انا للہ قید میں سب بیبیاں
فاطمہ زہرا کی پوتی شام کے زندان میں
سو گئی ہے گھڑکیاں سن سن کے کھا کر سیلیاں
سلام
دریا کی روانی پر خوں ناب قضا روئی
پیاسوں کی کہانی پر خوں ناب قضا روئی
اٹھارویں منت بھی بڑھنے نہیں پائی تھی
اکبر کی جوانی پر خوں ناب قضا روئی
سلام
اس طرح کب باغ کوئی بھی لٹا ہائے حسین
جس طرح تیرے چمن کے پھول کملائے حسین
زینب و سجاد کا گریہ تھما کب عمر بھر
خشک چشمِ غم سے آنسو خوں کے برسائے حسین
کوفہ میں شور کیسا یہ پروردگار ہے
اٹھا خدا کے گھر سے غموں کا غبار ہے
غم کی فضا زمانے پہ کیسی سوار ہے
ہے خوں چکاں شفق تو زمیں سوگوار ہے
دوڑو نمازیوں کہ ہوئے قتل مرتضیٰ
نوحہ
بہارِ باغِ رسول مقتل میں شاہِ دیں یوں لٹا رہے ہیں
حسین دل کے لہو سے اپنے زمینِ مقتل سجا رہے ہیں
گری ہیں غش کھا کے در پہ زینب اٹھے ہیں سجاد غش سے یکدم
صدائے ہل من کو سن کے اصغر زمیں پہ خود کو گرا رہے ہیں
نوحہ
چل گیا شبیر کی گردن پہ خنجر کیا ستم ہے
اہلِ بیتِ پاک پر ٹوٹا عجب کوہِ الم ہے
لاش اکبر کی اٹھائیں کس طرح سبطِ پیمبر
نور آنکھوں سے گیا ہے اور پشتِ شاہ خم ہے
یہ زبانِ بے زبانی سے علی اصغر پکارے
تیر کھا کر مسکرانا کیا درِ خیبر سے کم ہے
ہائے غربت دیکھئے شبیر کی ہنگامِ رخصت
نے علم داِرِ جری نے فوج ہے اور نے علم ہے
ہےگلوئے خشک اور خنجر ہے شمر بد گہر کا
کر نہ سر تن سے جدا یہ دے رہی زہرا قسم ہے
سر سرِ نیزہ ہے جسمِ نازنیں ریگِ تپاں پر
دیکھ کر منظر لہو روئی علی کی چشمِ نم ہے
خوں بھرا کرتا لئے تا ریکئِ شب میں سکینہ
ڈھونڈتی پھرتی ہے کس جا سینہِ شاہِ امم ہے
مصطفی کی بیٹیوں کو جانے کیوں عرصہ لگا تھا
فاصلہ بازار سے دربار کا گو کچھ قدم ہے
لوٹ سکتے ہی نہیں جس کو جہاں والے اے صاَئب
ایسی دولت ایسا سرمایہ فقط سرور کا غم ہے
۱ نومبر ۲۰۱۶ قم المقدسہ
نوحہ
جاگو عباس میرے یارِ وفا دار اٹھو
مجھ کو تنہا نہ کرو میرے علمدار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کے مینار اٹھو
میرے عباس اے دلدار اے کرار اٹھو
آدمیت کے شرف عزم کےمینار اٹھو
تیرے آنے کی لگائے ہوئے امید و آس
خون میں تر بتر ہوگئی کربلا
بعدِ عباس کیسا ستم یہ ہوا
کٹ گئے نہر پر شانے عباس کے
بچے پیاسے رہے کوزے خالی رہے
سرپٹکتی رہی کرب سے کربلا
نوحہ
ہئے نبی کی آل و بے کسی
،قتل ہو گئے علی نقی
پھر سے کربلا بپا ہوئی
قتل ہو گئے علی نقی
غزل عاشورای
کربلا محور افکار حقیقت گردید
ہر شهید آیه ی قرآنِ مودّت گردید
ای مسلمان تو مکن خوف ز فوج باطل
یاد کن کرب و بلا فاتحِ کثرت گردید
رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے
دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے
تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد
اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے
۱.ہوگئی ظلم و ستم کی انتہا بعد رسول
اک قیامت ہے مدینے میں بپا بعد رسول
۲.دو جہاں کی سلطنت رکھتی ہے جو زیر ِنگیں
آج ہے دربار میں بے آسرا بعد رسول
۱.اک حشر کا ساماں تھا اس سال مدینے میں
ہیں بعد نبی زہرا بے حال مدینے میں
۲.اے پیر فلک کیسی بیداد ہے یہ آخر
بے آس محمد کی ہے آل مدینے میں
حسنین پہ ہے آفت کی گھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
روتے ہیں نبی روتے ہیں علی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
بابا کی جدائی میں زہرا محروم ہیں اشک بہانے سے
رونے پہ لگی ہے پابندی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
وہ جس کے ناز اٹھائے خدا تعظیم کریں جس کی احمد
دربار میں ہے بے آس کھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر
ہو سکے تو یہ وصیت ہے نبھانا اے علی
غم میں زہرا کے نہ دل اپنا جلانا اے علی
دمِ رخصت یہ فقط آپ سے کہنا ہے علی
رات کے وقت مجھے غسل و کفن دینا تمہی
ہو جنازے میں نا شامل میرے کوئی بھی شقی
قبر بھی دنیا سے رکھنا اے علی تم مخفی
بہرِ رب میری وصیت کو نبھانا اے علی