کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)

جنوری سن ۲۰۱۲ سے حقیر نے صائب تخلص اختیار اس سے قبل تخلص محسن تھا

قصیدہ
در ہجو بعضی از مار ہای آستین
بے مایہ وتوقیر ہیں یہ خر مرے آگے
در اصل ہیں خنزیر کا گوبر  مرے آگے
سنڈاس عفونت میں ہیں بلکہ ہیں فزوں تر
یہ کیا ہیں بجز مردہ چھچھوندر مرے آگے
پھرتے ہیں بنے مردِ دلاور مرے پیچھے
گر چہ ہیں مخنّث سے بھی بد تر مرے آگے
سمجھیں ہیں نہنگ اپنے کو با زعمِ یزیدی
کرتے ہیں حقیقت میں تو ٹر ٹر مرے آگے
ان خواجہ سراوں میں کوئی مرد نہیں ہے
کیا دم ہے کہ آجائے یہ لشکر مرے آگے
رہتے ہیں مرے گرد یہ کم اصل  کچھ ایسے
لٹکے ہوں درختوں پہ جوں بندر مرے آگے
اے جاہلِ بد خو ہے تری خاک حقیقت
میں کوہِ دما وند تو کنکر مرے آگے
میں چھین لوں گر اپنی زبان تیرے دہن سے
تو اٹھ بھی نہ پائے گا زباں بھر مرے آگے
کج خلقی و بد گوئی میں ہو اس سے بھی بد تر
ایسا تو نہیں کوئی بھی بہتر مرے آگے
مندر میں ہوس کے یہ کیا کرتا ہے یہ  پوجا
بنتا ہے مسلمان یہ کافر مرے آگے
کیا اس کی حقیقت ہے عیاں سب پہ ہے لیکن
ابلیس کی صورت ہے یہ خچر مرے آگے
دل میرے حریفوں کے مری طرزِ ادا پر
کٹ جاتے ہیں جوں مولی  یا گاجر مرے آگے
اڑتا ہے مرا تختِ سخن دوشِ صبا  پر
اک مورِ بے وقعت ہیں سخنور مرے آگے
مطلع ثانی
لگتے ہیں سخنور سبھی بے پر مرے آگے
بے کار ہیں سب شعروں کے دفتر مرے آگے
میں فاتحِ اقلیم سخن، قلزمِ گفتار
کیوں کر نہ بھرے مشک سکندر مرے آگے
میں چرخ کو چاہوں تو زمیں آج ہی کردوں
افلاک ہیں اوراق کا دفتر مرے آ گے
خورشید سلامی کو چلا آتا ہے ہر روز
مہتاب کرے سجدہ ہے اکثر مرے آگے
کیا تاب ہے انجم میں کہ ہو جلوہ فگن اب
کیا دم ہے کہ کوکب ہو منور مرے آگے
از زورِ قلم نازشِ گفتارِ وفا ہوں
سکہ ترا چل پائے گا کیونکر مرے آ گے
ہر چند کہ تنگ دست ہوں پہ دیکھ لے دنیا
دنیا مرے پیچھے ہے تو کوثر مرے آگے
اس فقر نے وہ طینتِ خود داری عطا کی
جچتا ہی نہیں اب کوئی قیصر مرے آ گے
مستِ مئے پندارِ خودی ہوں میں ازل سے
کیا خوب ہے یہ نامِ قلندر مرے آگے
پھر سوئے غزل جانے لگا فکر کا طائر
پھر آ گئے الہام کے پیکر مرے آگے
غزل
کٹ جاتا ہے جھکتا جو نہیں سر مرے آگے
اے کاش تو کہتا یہ مکرر مرے آگے
یہ حال ہے فرقت میں کہ ہر ایک شکن پر
دیتا ہے دہائی مرا بستر مرے آگے

یہ سوچ کے دیوار سے ٹکراتا ہوں اکثر

دیوار کے پیچھے ہے کوئی در مرے آگے
پاسخ میں کہیں ہوئے نہ دقت اسے واللہ
مکتوب میں در پیش ہے یہ ڈر مرے آگے
اس طرح سے دنیا میں بسر  کی ہے کہ اب تو
کم ہے شبِ ہجراں سے یہ محشر مرے آگے
اندوہ و مصائب وہ اٹھائے ہیں جہاں میں
اب سیج ہے پھولوں کی یہ محشر مرے آگے
شل ہو گئے بازوئے ستم گنگ زبانیں
دم توڑ گئے ظلم کے خنجر مرے آ گے
صد رنگ زمانے نے مرے سامنے بدلے
ہر رنگ میں آیا ہے مقدر مرے آ گے
میں روکے ہوئے سیلِ رواں ہوں سرِ مژگاں
اس ضبط پہ حیراں ہے سمندر مرے آگے
اس ساری تعلّی سے  یہ مقصود نہیں تھا
اللہ کی مخلوق ہے کم تر مرے آگے
صائبؔ یہ تمنا ہے کہ اس طرح ہوں محشور
میں پیچھے چلوں ساقیِؔ کوثر مرے آگے
29 june 2020

 

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی